بلوچستان کا بجٹ — ترقی یا روایت کا تسلسل؟

[post-views]
[post-views]

ظفر اقبال

بلوچستان حکومت نے مالی سال 2025-26 کے لیے اپنا ریکارڈ بجٹ پیش کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت نے 1,028 ارب روپے کا سرپلس بجٹ پیش کیا ہے، جو مالی لحاظ سے نہ صرف ایک اہم سنگِ میل ہے بلکہ صوبے کے محروم طبقات کے لیے امید کی ایک کرن بھی ہو سکتا ہے۔ ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ ہونے کے باوجود، بلوچستان سب سے زیادہ تزویراتی اہمیت کا حامل ہے — معدنی وسائل، جغرافیائی محلِ وقوع، اور علاقائی تجارتی گزرگاہوں کی قربت اسے ایک فیصلہ کن حیثیت دیتی ہے۔

بجٹ کا سب سے بڑا حصہ — 249.5 ارب روپے — پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے مختص کیا گیا ہے، جس کا مقصد دور دراز علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی بہتری، ہنگامی حالات سے نمٹنے کے اقدامات، سماجی شعبے کی مضبوطی، اور امن و امان کی بحالی ہے۔ آٹھ مزید شہروں میں سیف سٹی منصوبے کے لیے 18 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر گاڑیوں کی خریداری کی پابندی ہٹا لی گئی ہے۔ مجموعی طور پر امن و امان کے لیے 83.7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

غیر ترقیاتی اخراجات میں اسکول ایجوکیشن کے لیے 101 ارب، اعلیٰ تعلیم کے لیے 24 ارب، صحت کے لیے 71 ارب، زراعت و آبپاشی کے لیے 22.07 ارب، مقامی حکومت و دیہی ترقی کے لیے 42 ارب، اور دیگر محکموں جیسے کھیل، نوجوان، خوراک، ماہی گیری اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے لیے مخصوص رقوم رکھی گئی ہیں۔ بجٹ میں چار ہزار سے زائد کنٹریکٹ اور دو ہزار مستقل سرکاری نوکریاں بھی شامل کی گئی ہیں تاکہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکیں۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

بجٹ کی مالی بنیادوں میں 801 ارب روپے وفاقی محاصل کے حصے سے اور 101 ارب روپے صوبائی آمدن سے حاصل کرنے کا تخمینہ ہے۔ کاغذوں پر یہ بجٹ امید افزا ہے، مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ وعدے حقیقت میں بدلے جا سکیں گے؟ بلوچستان کی سابقہ حکومتوں کی بدانتظامی اور کرپشن نے ترقیاتی عمل کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس کے باعث نہ صرف عوام میں مایوسی پھیلی بلکہ علیحدگی پسند گروہوں کو بھی موقع ملا۔

بلوچستان کے عوام، خاص طور پر نوجوان طبقہ، ریاست پر اعتماد کھو چکے ہیں۔ اس بجٹ کو صرف اعداد و شمار کی فہرست بننے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شفاف اور منصفانہ عملداری یقینی بنائی جائے۔ وفاقی حکومت پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ محض وعدوں تک محدود نہ رہے بلکہ عملی طور پر بلوچستان کے ساتھ انصاف کرے۔

یہ ایک ایسا صوبہ ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، مگر اس کے عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اگر یہ بجٹ واقعی تبدیلی کا نقطہ آغاز بن سکتا ہے تو اسے صرف کاغذ پر نہیں بلکہ زمین پر نافذ کرنا ہوگا — اسکول، اسپتال، سڑکیں، روزگار اور امن سب حقیقی شکل میں عوام تک پہنچنے چاہئیں۔

آخرکار، بلوچستان کا یہ بجٹ ایک موقع ہے — روایت توڑنے کا، عوام کا اعتماد بحال کرنے کا، اور ریاست و صوبے کے درمیان تعلق کو نئی بنیادوں پر استوار کرنے کا۔ سوال یہ نہیں کہ بجٹ کتنا بڑا ہے، بلکہ یہ ہے کہ اس کے ثمرات کتنے وسیع اور منصفانہ ہوں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ بلوچستان کو محض “سیکیورٹی مسئلہ” سمجھنے کے بجائے اسے “ترقی کا مرکز” بنایا جائے — اور یہ بجٹ اس سمت میں پہلا قدم ہو سکتا ہے، بشرطیکہ نیت، حکمت عملی اور عمل ایک صفحے پر ہوں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos