Premium Content

بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں

Print Friendly, PDF & Email

جون ایلیا اپنے عہد کے اہم اور منفرد شاعر تھے۔ آپ ذرا مختلف اور انوکھے اندازِ تحریر کی وجہ سے الگ شناخت رکھتے تھے جو بہت سراہے جاتے تھے، جن کی شاعری آج بھی پوری طرح زندہ ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ جون ابھی زندہ ہیں۔ وہ کہیں گئے نہیں بلکہ اپنی شاعری سے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔

جون ایلیا سادہ، لیکن تیکھی تراشی اور چمکائی ہوئی زبان میں نہایت گہری اور شور انگیز باتیں کہنے والے ہفت زبان شاعر، صحافی، مفکر، مترجم، نثر نگار، دانشور اور بالاعلان نفی پرست اور انارکسٹ جون ایلیا ایک ایسے شاعر تھے جن کی شاعری نے نہ صرف ان کے زمانہ کے ادب نوازوں کے دل جیت لئے بلکہ جنھوں نے اپنے بعد آنے والے ادیبوں اور شاعروں کے لئے زبان و بیان کے نئے معیارات متعین کئے۔ جون ایلیا نے اپنی شاعری میں عشق کی نئی جہات کا سراغ لگایا۔ وہ باغی، انقلابی اور روایت شکن تھے لیکن ان کی شاعری کا لہجہ ا تنا مہذب نرم اور غنائی ہے کہ ان کے اشعار میں میر تقی میر کے نشتروں کی طرح سیدھے دل میں اترتے ہوئے سامع یا قاری کو فوری طور پران کی فنی خوبیوں پرغور کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔

بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں
کہ ان کے خط انہیں لوٹا رہے ہیں

نہیں ترک محبت پر وہ راضی
قیامت ہے کہ ہم سمجھا رہے ہیں

یقیں کا راستہ طے کرنے والے
بہت تیزی سے واپس آ رہے ہیں

یہ مت بھولو کہ یہ لمحات ہم کو
بچھڑنے کے لیے ملوا رہے ہیں

تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے
ابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں

تمہیں چاہیں گے جب چھن جاؤ گی تم
ابھی ہم تم کو ارزاں پا رہے ہیں

کسی صورت انہیں نفرت ہو ہم سے
ہم اپنے عیب خود گنوا رہے ہیں

وہ پاگل مست ہے اپنی وفا میں
مری آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں

دلیلوں سے اسے قائل کیا تھا
دلیلیں دے کے اب پچھتا رہے ہیں

تری بانہوں سے ہجرت کرنے والے
نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں

یہ جذب عشق ہے یا جذبۂ رحم
ترے آنسو مجھے رلوا رہے ہیں

عجب کچھ ربط ہے تم سے کہ تم کو
ہم اپنا جان کر ٹھکرا رہے ہیں

وفا کی یادگاریں تک نہ ہوں گی
مری جاں بس کوئی دن جا رہے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos