منیر نیازی کی شاعری اک طویل جلاوطنی کی پہلی جھلک دیکھنے سے مماثلت رکھتی ہے۔ اس شاعری میں حیران کر دینے والے، بھولے ہوئے، گمشدہ تجربوں کو زندہ کرنے کی ایسی غیر معمولی صلاحیت ہے جو دوسرے شاعروں میں نظر نہیں آتی۔ منیر کی شاعری کی وابستگی نظریات یا علوم کے ساتھ نہیں بلکہ شاعری کی اصل اور اس کے جوہر کے ساتھ ہے۔ خود کو بطور شاعر شناخت کر کے اپنے وجود کا بطور شاعر ادراک اور اس پر ایمان منیر نیازی کو اپنے عہد کے آدھے شاعروں میں پورے شاعر کا درجہ دیتا ہے۔
بیٹھ جاتا ہے وہ جب محفل میں آ کے سامنے
میں ہی بس ہوتا ہوں اس کی اس ادا کے سامنے
تیز تھی اتنی کہ سارا شہر سونا کر گئی
دیر تک بیٹھا رہا میں اس ہوا کے سامنے
رات اک اجڑے مکاں پر جا کے جب آواز دی
گونج اٹھے بام و در میری صدا کے سامنے
وہ رنگیلا ہاتھ میرے دل پہ اور اس کی مہک
شمع دل بجھ سی گئی رنگ حنا کے سامنے
میں تو اس کو دیکھتے ہی جیسے پتھر ہو گیا
بات تک منہ سے نہ نکلی بے وفا کے سامنے
یاد بھی ہیں اے منیرؔ اس شام کی تنہائیاں
ایک میداں اک درخت اور تو خدا کے سامنے