Premium Content

بٹے رہو گے تو اپنا یوں ہی بہے گا لہو

Print Friendly, PDF & Email

حبیب جالب

سماجی ناہمواریوں کے خلاف قلم سے لڑنے والے جالب کی شاعری آج بھی لوگوں کو سچ پر ڈٹے رہنے کا درس دیتی ہے۔ اُنہوں  نے اپنی زندگی انقلاب کی امید میں جیلوں اور پولیس کے ہاتھوں مار پیٹ میں گزاری جس پر اُنہیں فخر تھا۔ انہوں نے ہر عہد میں سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جس کی وجہ سے وہ ہر عہد میں حکومت کے معتوب اور عوام کے محبوب رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں ان کی نظم لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو، ضیاء الحق کے دور میں ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا اور بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کی نظم وہی حالات ہیں فقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے نے پورے ملک میں مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔

بٹے رہو گے تو اپنا یوں ہی بہے گا لہو
ہوئے نہ ایک تو منزل نہ بن سکے گا لہو

ہو کس گھمنڈ میں اے لخت لخت دیدہ ورو
تمہیں بھی قاتل محنت کشاں کہے گا لہو

اسی طرح سے اگر تم انا پرست رہے
خود اپنا راہنما آپ ہی بنے گا لہو

سنو تمہارے گریبان بھی نہیں محفوظ
ڈرو تمہارا بھی اک دن حساب لے گا لہو

اگر نہ عہد کیا ہم نے ایک ہونے کا
غنیم سب کا یوں ہی بیچتا رہے گا لہو

کبھی کبھی مرے بچے بھی مجھ سے پوچھتے ہیں
کہاں تک اور تو خشک اپنا ہی کرے گا لہو

صدا کہا یہی میں نے قریب تر ہے وہ دور
کہ جس میں کوئی ہمارا نہ پی سکے گا لہو

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos