تحریر: ڈاکٹر محمد کلیم
عمر کے بارے میں کئی باتیں مشہور ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک بچپن بڑا سنہرا دور ہوتا ہے جب انسان کو کسی شے کی پرواہ نہیں ہوتی۔ جہاں جی چاہا سو گئے جہاں جی چاہا خوش ہو گئے اور جہاں جی چاہا رو پڑے اور پھر کچھ دیر بعد بھول گئے۔ اگر کسی بچے سے آپ پوچھیں کہ اس کی کیا خواہش ہے اور اس کی زندگی کیسی ہے پہلے تو اس سوال پر وہ آپ کو ایسے دیکھے گا جیسے کہہ رہا ہو کیا ہو گیا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا جو ایسے سوال پوچھ رہے ہو لیکن اس کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا ہے وہ بڑا ہونا چاہتا ہے اس کو آپ کھانا بھی اسی لالچ میں کھلاتے ہیں کہ کھانا نہیں کھاؤ گے تو بڑے کیسے ہو گے۔
اس لیے بچے کی خواہش پر غور کیا جائے تو وہ اپنے بچپن سے خوش نہیں ہے اس لیے جلدی جلدی بڑا ہونا چاہتا ہے لیکن کئی ادیب بڑے ہو کر چھوٹا ہونا چاہتے ہیں اس لیے کہہ اٹھتے ہیں ”میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن“بچپن ایک سنہرا دور ہوتا ہے لیکن بڑا ہونے کا جذبہ اتنا غالب ہوتا ہے کہ انسان اس کو بھول جاتا ہے بعد میں بے شک اس کو جتنا مرضی یاد کرے۔ بچپن کے بعد لڑکپن ہوتا ہے جس میں انسان کی شکل ایسی ہو جاتی ہے کہ دیکھنے والے پکار اٹھتے ہیں ”کتنا بے شکلہ“ ہے بہرحال انسان اس عمر میں قد وغیرہ بڑھا رہا ہوتا ہے اور جوانی کا پھول کھلنے والا ہوتا ہے۔
اس کے بعد جوانی کا دور شروع ہوتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے جوانی پھر نہیں آنی۔ یہ سچ بھی ہے۔ ایک دفعہ جو عمر گزر جائے وہ واپس نہیں آتی۔ جوانی کے متعلق ایک اور بیان مشہور ہے کہ جوانی جب گدھے پر بھی آتی ہے تو وہ بھی خوبصورت ہو جاتا ہے۔ اس لیے شکل، رنگ و روپ کی مانی جائے تو یہ بہترین عمر ہے بلکہ اس میں توانائی (طاقت) بھی خوب ہوتی ہے لیکن جیبیں خالی ہوتی ہیں، تجربہ نا ہونے کے برابر ہوتا ہے، روزگار حاصل کرنے کی جستجو ہوتی ہے۔
اس دور میں کافی عشق ہوتے ہیں لیکن نا تجربہ کاری، غربت اور ماں باپ کے ڈر سے ان درختوں پر پھل نہیں لگ پاتا بلکہ کہنے والے کہتے ہیں یہ پھول ایسے ہوتے ہیں جو بن کھلے ہی مرجھا جاتے ہیں۔ اوائل جوانی کے یہ مسائل لیے انسان نوجوانی سے جوانی کی دنیا میں داخل ہوتا ہے اب وہ صاحب روزگار ہے شادی شدہ ہے چھوٹے چھوٹے اس کے دو تین بچے ہیں جن سے سارا دن گھر میں چک چک بک بک چلتی رہتی ہے۔ تنخواہ اچھی ہے لیکن ابھی دفتر میں جونئیر ہے یا اگر کاروبار کر رہا ہے تو نیا نیا چلنے لگا ساکھ بن رہی ہے اس لیے محنت کی ضرورت ہے۔
بیوی سارا دن بچوں اور ہنڈی چولہے میں مصروف رہتی ہے۔ اس لیے جوانی میں جوانی والے کام کرنے کا وقت ذرا کم ہوتا ہے۔ خرچے زیادہ ہوتے ہیں وسائل کم۔ اس کشمکش میں دس پندرہ سال گزر جاتے ہیں انسان اپنے چالیس کے دور میں داخل ہوتا ہے۔ یہ دور ایسا ہے کہ اگر انسان نے ذرا سمجھ داری سے زندگی گزاری ہو تو مکان بن چکا ہوتا ہے، گاڑی ہوتی ہے، دفتر میں آپ کو سینئر پوزیشن مل چکی ہوتی ہے۔ بچے بڑے ہوتے ہیں کہ ان کی چک چک بک بک بند ہو جاتی ہیں لیکن ابھی اتنے بڑے نہیں ہوتے کہ ان کی شادی کی فکر ہو۔
اور سب سے بڑھ کر یہ آپ میں ابھی جوانی کی بقایا جات موجود ہیں حالانکہ آپ کی کن پٹیاں سفید ہو جاتی ہیں پیٹ بڑھ کر توند بن گیا ہوتا ہے اور گردن کے اوپر آپ کی ٹھوڑی پر گوشت لٹکنے لگتا ہے۔ لیکن تھوڑی سی محنت اور ڈینٹنگ پینٹنگ سے انسان دوبارہ سج دھج جاتا ہے جوان لگنے لگتا ہے اس عمر کو لوگ شرارتی عمر کہتے ہیں۔
اس عمر میں انسان کو دوبارہ عشق ہوتا ہے لیکن یہ جوانی والے عشق سے مختلف ہوتا ہے جوانی میں تو آپ کو ہر لڑکی اپنی اپنی لگتی ہے اور ان کو دیکھ کر آپ آہیں بھرتے ہیں اور خیالات کی رو میں بہنے لگتے ہیں۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوتا آپ تجربہ کار ہوتے ہیں اس لیے آپ سوچ سمجھ کر عشق کرتے ہیں اس کو آپ ”حساب والا“ عشق کہہ سکتے ہیں اس عمر میں مردوں کو بیس سال کی لڑکیاں زیادہ پسند آتی ہیں جب کہ جوانی میں اپنی سے بڑی لڑکیاں اس کو پسند ہوتی ہیں۔
اگر آپ اس عمر میں ہیں تو آپ پر دوسرے عشق کا دورہ پڑ سکتا ہے اس لیے لا حول پڑھتے رہیں لیکن کچھ بیویاں بھی بڑی تیز ہوتی ہیں وہ اس عمر میں اپنے لڑکے کو سنبھال لیتی ہیں۔ جدید تراش خراش کے کپڑے پہن کر بال ڈائی کر کے اونچی ہیل میں وہ آپ کو کمپنی دیتی ہیں اور زندگی سے خوب لطف لیتی ہیں اور آپ کو بھی اس کے ذائقہ سے روشناس کرواتی ہیں ورنہ مرد یہ ذائقہ چکھنے کے لیے باہر جانے کو تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اگر کوئی زندگی کی بہترین عمر ہے تو وہ چالیس سال ہے جب خیالات پختہ، تنخواہ معقول، بچے بڑے اور تھوڑی جوانی موجود ہوتی ہے۔ اس کے بعد بڑھاپا شروع ہوتا ہے جس میں آپ پرانا وقت یاد کرتے رہتے ہیں جب ہمارا دور تھا نہ تو وہ بھی کیا دور تھا۔ آپ کو نئے دور میں سب خرابیاں نظر آتی ہیں بچے شادی شدہ ہوتے ہیں یا تو وہ آپ کے ساتھ نہیں رہتے اگر رہتے ہیں تو لفٹ نہیں کرواتے۔ آپ اور آپ کی بڈھی دونوں مختلف کونوں میں منہ دیے کھانستے رہتے ہیں۔