ساغر صدیقی کا اصلی نام محمد اختر تھا۔ ان کی پیدائش 1928ء میں انبالہ میں ہوئی۔ ساغر صدیقی اپنے حال میں مست لاہور کی سڑکوں پر دن رات خاک چھاننے والے، حکومت کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے اردو کے ایک عظیم شاعر تھے جسے لوگ دیوانہ خیال کرتے۔ ساغر کے آسان اور برجستہ اشعار سینوں میں سنسناہٹ اور دلوں کو گداز بخشتے تھے۔ ساغر کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ اتنے خوبصورت اشعار اتنے میلے کچیلے ملنگ شخص نے کیسےکہے ہیں۔ چشم تحقیر سے نہ دیکھ ہمیں دامنوں کا فراغ ہیں ہم لوگ ساغر صدیقی نہ صرف اپنے دور کے بلکہ اس دور کے اور آنے والے دور کے بھی شاعر ہیں۔ ساغر صدیقی ہمیشہ سے ایسے نہ تھے۔ تقسیم پاکستان کے بعد جب وہ امرتسر سے لاہور آئے تو ایک دبلے پتلے اور خوش پوش نوجوان تھے۔ جس کے کنڈلوں والے بال تھے جو پتلون کے ساتھ بوسکی کی شرٹ پہنتا تھا۔ جو دلچسپ باتیں کیا کرتا تھا۔ جو اپنی شاعری اور ترنم سے مشاعرے لوٹ لیا کرتا تھا جس کا سینہ امنگوں اور حوصلوں سے بھرا ہوا تھا۔ ساغر صدیقی لطیف انور گورداس پوری سے اپنے کلام پر اصلاح لیتے تھے۔ غزلوں کے علاوہ نظمیں بھی لکھیں۔ قطعہ، رباعی ہر صنف میں خاصہ ذخیرہ چھوڑا۔ ساغر نے امرتسر سے لاہور کا سفر کیا۔ فلموں کے گیت لکھے۔ لاہور کے انار کلی بازار میں قیام کیا اور خوب سیر و تفریح کی۔ کہا جاتا ہے کہ ساغر آخر وقت میں نشے کے عادی ہوگئے تھے اور لاہور کی گلیوں میں نشے کی حالت میں پڑے رہتے تھے۔ پاکستان کے اس عظیم شاعر کا انتقال فالج کی وجہ سے 19 جولائی 1974ء کو ہوا اور میانی صاحب قبرستان میں مدفون ہوئے۔
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
منزل نہیں ہوں خضر نہیں راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے
میری نگاہ شوق سے ہر گل ہے دیوتا
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے
نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے
اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے
گم صم کھڑی ہیں دونوں جہاں کی حقی قتیں
میں ان سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیے
ساغرؔ کسی کے حسن تغافل شعار کی
بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.