“خون ،فون، سکون ، جنون اور ممنون”

[post-views]
[post-views]



انسانی تاریخ کا وہ دور گزر چکا ہے جب انسان خون کے رنگ کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔بحث ہوتی تھی کہ کس کے خون کا رنگ کیا ہے؟ کس کا خون سفید ہے؟کس کا خون نیلا ہے؟ کس کا خون پیلا ہے؟ کس کا خون شاہی ہے ؟ کس کا خون تباہی ہے ؟ کس میں خون کی کمی ہے ؟ کس کے خون کی وجہ سے سب کی آنکھ میں نمی ہے؟ اب لوگ خون نہیں فون دیکھتے ہیں۔ آئی فون ہر ” آئی” کو بہت بھاتا ہے۔ اینڈرائیڈ کا بھی اپنا ہی کھاتہ ہے۔ بندہ بھلے ڈھائی من کا ہو ، فون سمارٹ ہو تو سمارٹ کہلاتا ہے۔ فون نے لوگوں سے سکون چھین لیا ہے ؟ صورتحال ایسی نہیں ہے، یہ فون پر الزام ہے ؟ فون کی وجہ سے انسانیت کا پہیہ جام ہے ، حقیقت جو بھی ہو ، آجکل جدید ترین فون والے کا بڑانام ہے۔قارئین کا مطالبہ اکثر سامنے آتا رہتا ہے کہ سمارٹ فون کی حرکات، برکات،خطرات اور مضمرات کی بابت کالم لکھے جائیں ۔ سمارٹ فون ہے اتنا ظالم ،بندہ لکھ لے جتنے کالم ، تشنگی رہ جائے گی۔ کتابوں کا ایک دفتر بھی شاید ناکافی ہو۔ کالم نگار اپنی سی کوشش کرے گا ۔ آج کا ہمارا بنیادی موضوع انسان کا سکون اور جنون ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دل کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے۔ لوگوں کے سکون کا دشمن شیطان ہے ، پاکستا ن کے ہر فرد کو یہ اطمینان ہے ، اسے حاصل شیطان سے امان ہے کیونکہ اس کا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ہے۔ پاگل پن کو بھی جنون کہا جاتا ہے۔ برصغیر کی تاریخ پر نظر رکھنے والے غیر جانبدار مورخین کی کثیر تعداد اس نقطہ نظر کی حامی ہے۔ اگرچہ مسلمانوں سے حکومت انگریزنے چھینی مگر جنون کا شکار ہندو ہوگئے ۔ جی ہاں ! وہی ہندو جو ہزار سال سے زائد عرصہ مسلمانوں کے دور حکومت میں انتہائی پرسکون زندگی بسر کررہے تھے ۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلم حکمران ہمیشہ اقلیت کے جملہ حقوق کی حفاظت کرتے رہے ۔ تمام دنیا سے لوگ مسلم ممالک کا رخ کرتے تھے۔ ماضی قریب تک مسلم ممالک لوگوں کے لیئے پناہ گاہ کا کام دیتے تھے۔ بر صغیر میں مسلمان اسلام کے ابتدائی دور سے آ جا رہے تھے ۔کہا جاتا ہے کہ پہلا باقاعدہ فوجی حملہ محمد بن قاسم نے کیا۔ محمد بن قاسم سے اورنگ زیب عالمگیر تک حکمرانوں کی ایک لمبی لسٹ ہے۔لسٹ میں شامل زیاد ہ تر حکمرانوں کو آج بھی ہر مذہب کے لوگ قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انسان ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض مسلم حکمران اقلیتوں کے حقوق کی اسلامی قوانین کے مطابق پاسداری کرنے میں ناکام رہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ غالب اکثریت نے رعایا کو رعایا سمجھا ، تمام لوگوں کو ایک نظر سے دیکھا ، تمام لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کی شاندار روایات قائم کیں۔ 1857 کی جنگ آزادی اس بات کی شاہد ہے کہ ہندو مسلمان ، برٹش راج سے تھے ایک جیسے پریشان، تھے یک جان ، انگریزی حکومت آتے ہی آیا عجب طوفان، مسلم ہوئے ہلکان، ہندو بنے انجان ، توڑ دیا مان ۔مسلم حکومت کا خاتمہ ہوتے ہی ہندو کیوں مسلمانوں کے وجود کے خاتمے پر تل گئے ؟ ہندو مسلم دشمنی کی بنیاد کب ، کیوں اور کیسے پڑی؟ تاریخ دان حضرات سے گذارش ہے کہ اس موضوع پر مزیدتحقیق کریں۔ کالم نگار تاریخ کا طالبعلم ہے ۔ راقم الحروف کا علم بتاتا ہے کہ ہر مسلم رہنما کو مسلم قوم کی بقا کے لیے جد وجہد کرنا پڑی۔ کانگرس کو کبھی مسلمانوں کا اعتماد حاصل نہیں رہا۔ سر سید احمد خان سے لے کر قائد اعظم تک ہر مسلم رہنما نے ہندو مسلم اتحاد کے لیئے بھرپور کوشش کی۔ ہر کاوش مگر بیکار ثابت ہوئی۔ آخر کار مسلمان آزاد وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ ہندو مگر آج تک ہمارے سکون کے دشمن ہیں۔ ہندوتوا کاجنون دن بدن بڑھتا جارہا ہے ۔ حالیہ واقعات کے بعد تمام دنیا جان گئی ہے کہ کسی کا جنون مسلم کا سکون تباہ نہیں کرسکتا۔ ہر پاکستانی کا خون مقدس ہے ۔خون کی حفاظت کے ذمے دار بھی مقدس ہیں۔ اسلام کا “مادہ سلم” سے ہے ۔” سلم” کا مطلب امن و سلامتی ہے ۔ اسلام سلامتی کا دین ہے تواسلام آباد ہر ملک کی سلامتی کا متمنی ۔ اقوام متحدہ کے مختلف امن مشنز میں پاکستان کی نمائندگی دنیا کے دیگر ممالک سے زیادہ ہوتی ہے ۔ پاکستانی فوج امن کے حوالے سے اپنی خدمات کے لیئے تمام دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ شرافت کو انفرادی طور پر بھی کمزوری سمجھاجانے لگا ہے اور اجتماعی طور پہ بھی ۔ دشمن کو ہماری شرافت سے یہ غلط فہمی ہوئی کہ وہ ہمیں اپنے پاگل پن کا نشانہ بناسکتا ہے۔۔ ہمارا سکون چھین سکتا ہے۔ وہ بھول گیا کہ شہادت کی خواہش ہر مسلمان کے خون میں ہوتی ہے:۔
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیئے اس کو خون عرب سے
کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں نظر میں اذان سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہیں کے جگر میں
کشاد در دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لا تذر میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہ مسلماں کو تلوار کر دے
دنیا دو نیوکلیئر طاقتوں کے درمیان تصادم کی متحمل نہیں ہوسکتی۔” ہیرو شیما اور ناگاساکی” پر گرائے گئے ایٹم بم آج تک بنی نوع انسان کے لیئے خطرات کا باعث بن رہے ہیں۔ لوگ قیام امن کے لیئے امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں اور حالیہ قیام امن کے لیئے امریکہ کے ممنون ہیں۔ کالم نگار اتنا جانتا ہے کہ انسانیت کی تاریخ میں سب سے زیادہ امن پسند ہستی رسول اللہ کی ہے ۔ مسلمانوں کے محبوب پیغمبر نہ صرف بنی نوع انسان کے لیئے بلکہ جملہ مخلوقات کے لیئے رحمت ہیں۔امت محمدیہ قیام امن کی داعی ہے ۔ فرقان کی آیت کا مفہوم بتاتا ہے کہ مسلمان بہترین امت ہیں کیوں کہ وہ خیر پھیلاتے ہیں اور شر کو مٹاتے ہیں۔ مظلوم کو گلے سے لگاتے ہیں ،ظالم کو مزہ چکھاتے ہیں۔ بنی نوع انسان نبی کریمﷺ کی ممنون ہے۔ پرامن دنیا کا حصول اسلام کے پیغام پر عمل سے ہی ممکن ہے۔ کالم نگار کویقین ہے کہ امن کا دشمن سبق سیکھ چکا ہے۔آئندہ وہ اپنی حد میں رہے گا ۔ وہ جان گیا ہے کہ اس کی نجات اسی میں ہے۔ اس کا مقابلہ اس قوم سے ہے جسے پیغمبر آخرالزماں ﷺ سے عشق ہے:۔
ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں
ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں
دین ہمارا دین مکمل استعمار ہے باطل ارذل
خیر ہے جدوجہدِ مسلسل
عند اللہ عنداللہ عنداللہ عنداللہ
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر
سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ یہ وحدت فرقانی
روحِ اخوت، مظہرِ قوت، مرحمتِ رحمانی
سب کی زبان پر سب کے دلوں میں اک نعرۂ قرآنی
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر
امن کی دعوت کل عالم میں، مسلک عام ہمارا
دادِ شجاعت دورِ ستم میں یہ بھی کام ہمارا
حق آئے باطل مٹ جائے یہ پیغام ہمارا
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos