پاکستان کی معیشت کا چیلنج: بجٹ سازی اور آئی ایم ایف کا دباؤ

[post-views]
[post-views]

ارشد محمود اعوان

پاکستان کے اگلے مالی سال کا اقتصادی منصوبہ ایک بار پھر ایک پرانی رکاوٹ کا شکار ہو گیا ہے: انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ غیر حل شدہ مذاکرات۔ حکومت نے اب وفاقی بجٹ کی پیشکش 10 جون تک مؤخر کر دی ہے۔ اس تاخیر کی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ بعض اہم اخراجات پر اختلافات بتائے جا رہے ہیں، جن میں متوسط طبقے کے لیے ریلیف اور دفاعی بجٹ میں اضافے کی تجاویز شامل ہیں۔ آئی ایم ایف ان تجاویز کو مالی نظم و ضبط اور پاکستان کے 7 ارب ڈالر کے توسیعی مالی امدادی سہولت پروگرام کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

یہ تاخیر اگرچہ غیر معمولی نہیں، لیکن یہ گہری حکومتی کمزوری اور معاشی خودمختاری کے بحران کی عکاس ہے۔ ریاست اب بھی بیرونی مالیاتی اداروں پر حد سے زیادہ انحصار کرتی ہے اور مقامی مسائل — جیسے مہنگائی، بےروزگاری، یا بھارت سے لاحق سیکورٹی خطرات — سے نمٹنے کے لیے اس کے پاس خود فیصلہ سازی کی گنجائش محدود ہے۔

حکومت کا مؤقف ہے کہ کچھ اخراجات پر سمجھوتہ ممکن نہیں۔ خاص طور پر تنخواہ دار متوسط طبقے کے لیے ریلیف — جو کہ ریکارڈ مہنگائی، بڑھتے بلوں اور جمود کا شکار تنخواہوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے — ضروری ہے تاکہ سماجی استحکام برقرار رہے۔ دوسری جانب، دفاعی اخراجات میں اضافہ بھارت کے جارحانہ رویے اور مشرقی سرحد پر مستقل خطرے کے پیش نظر ناگزیر سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم، آئی ایم ایف ان تمام اخراجات کو مالی استحکام کے وسیع تر مقصد کی روشنی میں جانچنے پر زور دے رہا ہے۔

اسلام آباد میں کئی ناکام مذاکراتی دوروں کے بعد آئی ایم ایف کا وفد اس امید کے ساتھ واپس گیا کہ آئندہ ہفتے ورچوئل ملاقاتوں میں بات چیت جاری رہے گی۔ اپنے بیان میں آئی ایم ایف نے ان مذاکرات کو “تعمیراتی” قرار دیا اور کہا کہ دونوں فریق مالیاتی راستے پر متفق ہیں جس کا ہدف مالی سال 2025 میں جی ڈی پی کے 1.6 فیصد کا پرائمری سرپلس حاصل کرنا ہے۔ بیان میں ٹیکس نظام کو بہتر بنانے، آمدن کے دائرہ کار کو وسیع کرنے، اور اخراجات کو “ترجیحات کے مطابق” رکھنے پر زور دیا گیا — جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ دفاع اور متوسط طبقے کے لیے ریلیف صرف اس صورت میں منظور کیا جائے گا جب نئی آمدن کے ذرائع فراہم کیے جائیں۔

اگرچہ مذاکرات کے مکمل ناکام ہونے کا خطرہ فی الحال نظر نہیں آتا، لیکن یہ تعطل ایک بار پھر آئی ایم ایف کے روایتی حل — کفایت شعاری، ٹیکسوں میں اضافہ، اور سماجی اخراجات میں کمی — کی حقیقت کو سامنے لاتا ہے۔ یہ نسخہ نظریاتی طور پر مضبوط ہو سکتا ہے، مگر اکثر زمینی حقائق — خصوصاً سیاسی اور سماجی پہلوؤں — کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ پاکستانی عوام، بالخصوص ٹیکس دینے والا متوسط طبقہ، مزید سخت فیصلے برداشت نہیں کر سکتا۔ اسی طرح ریاست بھی دفاعی ضروریات کو ہمیشہ کے لیے مؤخر نہیں کر سکتی۔

ماضی میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اس نوعیت کے اختلافات اکثر سمجھوتے کے ذریعے حل ہوتے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف ریلیف اور دفاعی اخراجات کی تلافی کے لیے مزید ٹیکس یا سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے، مگر جب سیاسی حساسیت واضح ہو، تو بعض اوقات وہ لچک دکھاتا ہے۔ تاہم، ایسے سمجھوتے زیادہ تر اصلاحات کو مؤخر کرتے ہیں، ان کو نافذ نہیں کرتے۔

پاکستان اس وقت ایک نازک توازن میں جھول رہا ہے۔ مالی نظم و ضبط کی ضرورت حقیقی ہے، کیونکہ کمزور معاشی بحالی کسی بھی اندرونی یا بیرونی جھٹکے سے متاثر ہو سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پراپرٹی جیسے بااثر طبقات کے دباؤ کے سامنے نہ جھکے، جو ٹیکس میں چھوٹ چاہتے ہیں، اور اس کے بجائے ٹیکس اصلاحات کرے جو دائرہ کار کو بڑھائیں، عمل درآمد یقینی بنائیں، اور بوجھ کو غریبوں سے امیروں کی طرف منتقل کریں۔

ساتھ ہی، ریاست عوامی دباؤ کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتی۔ مہنگائی میں کمی سست ہے، روزگار کے امکانات محدود ہیں، اور عوام یہ امید کر رہے ہیں کہ مالی سال 2026 کا بجٹ کچھ ریلیف لائے گا۔ سیاسی بقا بھی اس بات پر منحصر ہے کہ حکومت کچھ واضح بہتری دے — یا کم از کم اس کا تاثر قائم کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے لیے “خوشنما” بجٹ بنانے کی ترغیب بڑھتی جا رہی ہے، جو وقتی طور پر تو عوام کو مطمئن کر دے گا، مگر طویل مدتی مالیاتی استحکام کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

اصل سوال یہ ہے: کیا پاکستان واقعی آئی ایم ایف کی محتاجی سے نکل سکتا ہے؟ فی الحال اس کا جواب واضح طور پر “نہیں” ہے۔ ملک کا بیرونی کھاتہ کمزور ہے، زرمبادلہ کے ذخائر ناکافی ہیں، اور بہت سے فریقوں پر مشتمل مالی امداد کے بغیر دیوالیہ ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ پاکستان اس وقت دوست ممالک سے قرض کی قسطوں کی تجدید اور آئی ایم ایف کی اقساط پر انحصار کر کے گزارا کر رہا ہے — یہ ایک بقا کی حکمت عملی ہے، ترقی کی نہیں۔

یہ انحصار معاشی خودمختاری کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ پالیسی سازی اب اسلام آباد میں نہیں بلکہ واشنگٹن اور دبئی میں ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ دفاعی بجٹ اور عوامی ریلیف جیسے اہم معاملات بھی بیرونی مشوروں سے مشروط ہو چکے ہیں۔ حکومت اس کو وقتی مصلحت قرار دے سکتی ہے، مگر طویل مدتی نتائج خطرناک ہیں۔

ایسے ماحول میں ہر مالی فیصلہ سیاسی بن چکا ہے — صرف اندرونی نہیں، بیرونی طور پر بھی۔ ریاست کو نہایت احتیاط سے قدم اٹھانا ہوگا۔ کوئی بھی غلطی سرمایہ کاروں کو بدظن کر سکتی ہے، امداد رکوا سکتی ہے، یا سیاسی ردعمل کو ہوا دے سکتی ہے۔ اس لیے مالی سال 2026 کا بجٹ ایسا ہونا چاہیے جو آئی ایم ایف کو مطمئن کرے، اور عوام کو کچھ ریلیف دے کر معاشرتی استحکام اور قومی خوداعتمادی کو فروغ دے۔

جو چیز فی الحال غائب ہے، وہ ایک واضح اور جامع طویل مدتی ویژن ہے، جو پاکستان کو بحرانوں کے اس چکر سے نکال سکے۔ جب تک اصل اسٹرکچرل اصلاحات — جیسے خود انحصاری، ٹیکس نظام کی توسیع، اور اخراجات میں شفافیت اور مساوات — نہیں کی جاتیں، پاکستان سیاسی طور پر دباؤ میں، معاشی طور پر کمزور، اور سفارتی طور پر غیرمحفوظ ہی رہے گا۔

بجٹ میں تاخیر صرف ایک انتظامی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک گہرے بحران کی علامت ہے۔ حکومت کو اب فیصلہ کرنا ہے: کیا وہ عارضی مرہم پٹی سے کام چلائے گی، یا پائیدار، خودمختار معیشت کی بنیاد رکھنے کا مشکل مگر ضروری کام شروع کرے گی؟ آدھے اقدامات کا وقت اب ختم ہو چکا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos