کیا مسلم لیگ ن صرف اچھی حکمرانی کے ذریعے اپنی مقبولیت بحال کر سکتی ہے؟

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

پاکستان کی بدلتی ہوئی سیاسی فضا میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اپنی بقا اور عوامی مقبولیت کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ ایک زمانے میں ملکی سیاست پر غالب رہنے والی جماعت آج اپنی تاریخ کے کم ترین عوامی اعتماد سے گزر رہی ہے۔ اس تناظر میں، مسلم لیگ ن کی جانب سے “اچھی طرزِ حکمرانی” کو واپسی کا واحد راستہ قرار دینا نہ صرف ناکافی بلکہ حالات کے ادراک سے بھی عاری محسوس ہوتا ہے۔

ماضی میں اس جماعت کی کارکردگی انفراسٹرکچر کی تعمیر، انتظامی نظم و ضبط اور بعض ترقیاتی منصوبوں تک محدود تھی، جس نے وقتی طور پر اسے کامیابی دلائی۔ لیکن آج کا ووٹر، خصوصاً نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ، صرف سڑکوں اور میٹروز سے متاثر نہیں ہوتا۔ اس نئی نسل کے نزدیک شفافیت، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور شہری آزادیوں کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔

مسلم لیگ ن پر حالیہ برسوں میں یہ الزامات مسلسل عائد ہوتے رہے ہیں کہ اس نے جمہوری اصولوں پر سمجھوتہ کیا، سیاسی انجینئرنگ میں خاموشی اختیار کی بلکہ بعض اوقات اس کا حصہ بنی رہی۔ عدالتی انصاف، میڈیا کی آزادی اور ادارہ جاتی خودمختاری جیسے معاملات پر اس کی کارکردگی نہایت مایوس کن رہی ہے۔ چنانچہ اب محض طرزِ حکمرانی پر زور دینا، جبکہ سیاسی اخلاقیات اور جمہوری رویے کمزور ہوں، عوام کے لیے قابل قبول نہیں۔

Please subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

انتخابات کے بعد یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ ووٹرز اب “کیا تعمیر ہوا؟” سے زیادہ “کس قیمت پر؟” کا سوال پوچھتے ہیں۔ اب اچھی حکمرانی کی تعریف بھی بدل چکی ہے—یہ صرف ترقیاتی منصوبے نہیں بلکہ آزاد ادارے، منصفانہ انتخابات، اور شفاف احتساب پر مشتمل ہے۔

ان حالات میں مسلم لیگ ن اگر صرف ظاہری نظم و نسق کو اپنا سیاسی ہتھیار بنائے گی، تو یہ حکمتِ عملی سطحی اور عارضی ثابت ہوگی۔ اصل ضرورت اعتماد کی بحالی، اصولوں پر استقامت، اور حقیقی جمہوری طرزِ عمل اپنانے کی ہے—جو کہ آج کے باشعور ووٹر کی اولین ترجیح بن چکی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos