سروائیکل کینسر ویکسین کے خلاف پروپیگنڈا: بچیوں کے مستقبل کو خطرہ

[post-views]
[post-views]

گلناز خالد

پاکستان میں بالخصوص پنجاب میں سروائیکل کینسر ویکسین کی مہم ایک اہم صحت عامہ کا اقدام ہے، مگر اس کے باوجود والدین کی بڑی تعداد اپنی بچیوں کو یہ ویکسین لگوانے سے ہچکچاہٹ یا انکار کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق یہ ویکسین انسانی پیپی لوما وائرس سے بچاؤ کے لیے نہایت ضروری ہے جو خواتین میں سروائیکل کینسر کی بنیادی وجہ ہے۔ دنیا بھر میں اس ویکسین نے مؤثر طور پر کینسر کے کیس کم کیے ہیں اور عالمی ادارہ صحت بھی اس کے استعمال کو ترجیحی اہمیت دیتا ہے۔

ویب سائٹ

تاہم پاکستان میں صورتحال مختلف ہے۔ پنجاب میں شروع کی گئی اس مہم کو کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ والدین کا عدم اعتماد ہے۔ بیشتر والدین کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ ویکسین کے مضر اثرات ان کی بچیوں کی صحت یا مستقبل کی زرخیزی پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طبی تحقیق نے ان خدشات کو بارہا غلط ثابت کیا ہے، لیکن سوشل میڈیا پر پھیلنے والی من گھڑت باتوں اور افواہوں نے والدین کے ذہنوں میں خوف پیدا کر دیا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف بچیوں کی صحت کے لیے خطرناک ہے بلکہ آنے والے وقت میں معاشرے پر بھی بھاری بوجھ ڈال سکتا ہے۔

یوٹیوب

پنجاب کے مختلف اضلاع میں اسکول سطح پر اس مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ محکمہ صحت کی ٹیمیں طالبات کو آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ ویکسین لگانے کی سہولت فراہم کر رہی ہیں۔ لیکن کئی اسکولوں میں والدین نے اپنی بیٹیوں کو ویکسین سے دور رکھنے کے لیے باقاعدہ درخواستیں دیں یا بچیوں کو اسکول بھیجنے سے انکار کر دیا۔ کچھ مواقع پر والدین نے کھلے عام کہا کہ وہ ایسی ویکسین پر اعتماد نہیں کرتے جو “ان کی روایات اور اقدار کے خلاف” محسوس ہوتی ہے۔ اس مزاحمت نے مہم کو متاثر کیا اور ہدف سے کم بچیوں کو ویکسین دی جا سکی۔

ٹوئٹر

اس صورت حال میں سوشل میڈیا کا کردار نہایت تشویشناک ہے۔ ویکسین کے خلاف چلنے والی مہمات میں جھوٹی خبریں، غلط اعداد و شمار اور مذہبی حوالوں کو مسخ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ویکسین بانجھ پن کا سبب بنتی ہے یا غیر ملکی سازش ہے۔ اس طرح کی پروپیگنڈا ویڈیوز اور پیغامات واٹس ایپ گروپس، فیس بک اور ٹک ٹاک پر تیزی سے پھیلتے ہیں اور عام والدین انہیں بغیر تحقیق کے قبول کر لیتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ویکسین کی افادیت عالمی سطح پر ثابت شدہ ہے اور یہ ایک معمول کا حفاظتی ٹیکہ ہے جسے کئی ترقی یافتہ ممالک اپنی قومی ویکسین پروگرام میں شامل کر چکے ہیں۔

فیس بک

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اگر اس مزاحمت کو ختم نہ کیا گیا تو پاکستان میں خواتین میں سروائیکل کینسر کے کیس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ بیماری پہلے ہی خواتین میں عام پائے جانے والے کینسرز میں شامل ہے، مگر آگاہی کی کمی اور بروقت جانچ و علاج نہ ہونے کے باعث زیادہ تر کیس آخری مراحل میں سامنے آتے ہیں، جس کے نتیجے میں اموات کی شرح بلند رہتی ہے۔ حفاظتی ٹیکہ کاری اور بروقت جانچ اس بیماری کے خلاف سب سے مؤثر ہتھیار ہیں، لیکن اگر سماجی رویے اور سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا جاری رہا تو یہ موقع ضائع ہو سکتا ہے۔

ٹک ٹاک

اس حوالے سے حکومت پنجاب اور محکمہ صحت کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی اور مذہبی رہنماؤں کو بھی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین کو سائنسی بنیادوں پر اعتماد میں لینا ہوگا اور افواہوں کا توڑ درست معلومات کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں آگاہی سیمینار، ڈاکٹروں کی رہنمائی پر مبنی نشستیں اور میڈیا پر مثبت مہمات چلانا وقت کی ضرورت ہیں۔ اگر یہ اقدامات بروقت نہ کیے گئے تو ویکسین مخالف بیانیہ جڑ پکڑ لے گا اور ایک پوری نسل کو ایسے مرض کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس سے دنیا کے دیگر ممالک کامیابی سے بچاؤ کر رہے ہیں۔

آخرکار یہ صرف صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ اپنی بچیوں کو بیماری سے محفوظ رکھنا والدین کا بنیادی فریضہ ہے۔ حفاظتی ٹیکہ جات کے خلاف بلاجواز انکار دراصل ان کے مستقبل کے ساتھ ناانصافی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ افواہوں کے بجائے تحقیق، سچائی اور سائنسی شواہد پر مبنی پالیسی اپنائے تاکہ آنے والی نسلیں اس مہلک بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔

انسٹاگرام

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos