اکبرالہ آبادی سیداکبرحسین رضوی(1921-1846)الہ آباد کے قصبے بارہ میں پیدا ہوئے۔ طنزیہ اورمزاحیہ شاعری کےلیےمشہور اکبرکی ملازمت عرضی نویسی سےشروع ہوکروکالت، پھرسیشن جج کےعہدےپرختم ہوتی ہے ۔
ان کادورنوآبادیاتی دورہے،اورشاید یہ اس دور کا ہی اثر تھا، جس نےداغ اور امیر مینائی کے رنگ میں روایتی غزل کہنے والے اکبر کی شاعری کا اندازہی بدل دیا۔ ان کی شاعری اسی بدلے ہوئے رنگ کی شاعری ہے جس میں اکبر کا عہد سانس لیتا ہے۔
چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں
آرزو میں نے کوئی کی ہی نہیں
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
چاہتا تھا بہت سی باتوں کو
مگر افسوس اب وہ جی ہی نہیں
جرأت عرض حال کیا ہوتی
نظر لطف اس نے کی ہی نہیں
اس مصیبت میں دل سے کیا کہتا
کوئی ایسی مثال تھی ہی نہیں
آپ کیا جانیں قدر یا اللہ
جب مصیبت کوئی پڑی ہی نہیں
شرک چھوڑا تو سب نے چھوڑ دیا
میری کوئی سوسائٹی ہی نہیں
پوچھا اکبرؔ ہے آدمی کیسا
ہنس کے بولے وہ آدمی ہی نہیں