@PMScivilservant طارق محمود اعوان
کالم نگار سول سرونٹ ہیں اور انتظامی فیڈرلزم ریسرچ سوسائٹی کے سربراہ ہیں
صوبہ پنجاب میں چیف سیکرٹری کی تعنیاتی ایک معمہ بن چکی ہے۔ پنجاب کی موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد چیف سیکرٹری پنجاب نے وفاق سے درخواست کی کہ انکی خدمات صوبہ پنجاب سے وفاق میں لے لی جائیں۔ اس تناظر میں صوبائی حکومت نے بھی وفاقی حکومت کو خط لکھا کہ صوبائی حکومت کا تجویز کردہ افسر پنجاب کا چیف سیکرٹری تعینات کر دیا جائے مگر وفاقی حکومت نے مندرجہ بالا تجویز کو رد کر دیا۔
تاہم ابھی بھی پنجاب میں باقاعدہ چیف سیکرٹری کی تعنیاتی نہیں ہوئی ہے اور انتظامی معاملات عارضی تعنیاتی پر چلائے جا رہے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ خالصتاً صوبائی پوسٹ پر وفاقی حکومت کو اختیار دے کہ وہ چیف سیکرٹری کی پوسٹ پر نہ صرف تعیناتی کرے بلکہ تعیناتی بھی وفاقی سروس سے کرے ؟
چیف سیکرٹری کی تعیناتی کا موجودہ طریقہ کار اور موجودہ آئینی پوزیشن کا ذیل میں تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے۔
آئینِ مملکتِ خداداد پاکستان کے آرٹیکل 1 کے مطابق پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہے۔آرٹیکل 50 کے مطابق اس مملکت میں ایک پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے۔ آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت آئین اور قانون کی پاسداری ہر شہری پر فرض ہے اور کسی بھی آئین شکنی کی صورت میں آرٹیکل 6 اس جرم کی سزا مقرر کرتا ہے۔
آرٹیکل 101 کے مطابق صوبائی گورنر ایک آئینی عہدہ ہے جس پر صدر تمام صوبوں میں تعیناتی کرتا ہے۔ گویا وفاق اور صوبوں کے درمیان آئینی ربط و تعلق کا اظہار گورنر کا عہدہ ہے۔اس کے برعکس 1973ء کے آئین کی رو سے چیف سیکرٹری کا عہدہ کوئی آئینی عہدہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک خالصتاً صوبائی انتظامی عہدہ ہو سکتا ہے جس کےلئے صوبائی اسمبلی قانون سازی کی مجاز ہے۔
چیف سیکرٹری کی پوسٹ خالصتاً ایک صوبائی انتظامی پوسٹ ہے جو کہ آرٹیکل 240(ب) ، پرووانشل سول سرونٹس ایکٹ 1974 کے سیکشن 4 اور صوبائی فنانس ایکٹ کے تحت تشکیل دی گئی ہے اور جس پر متعین شخص کو آرٹیکل 121(ب) کے مطابق پرووانشل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے صوبائی بجٹ کی مَد میں تنخواہ دی جاتی ہے۔ چیف سیکریٹری کی پوسٹ آرٹیکل 139 کے تحت صوبائی محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کی نوٹیفائیڈ پوسٹ ہے۔
چیف سیکرٹری کی اس خالصتاً صوبائی پوسٹ پر آئین کے آرٹیکل 137، 139 اور 129 کے تحت مکمل انتظامی اتھارٹی صوبائی کابینہ اور وزیر اعلیٰ ہی کی ہے ۔
پاکستان کے آئین کے دو بنیادی ستون فیڈرلزم اور پارلیمانی گورننس ہیں: فیڈرلزم کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتیں قائم ہیں جبکہ پارلیمانی گورننس کے تحت مقننہ ہی انتظامیہ کو تشکیل دیتی ہے۔ انتظامیہ ، سیاسی انتظامیہ اور بیوروکریٹک انتظامیہ پر مشتمل ہے۔ اس لیے یہ طے شدہ امر ہے کہ اگر صوبائی اسمبلی وزیراعلی کو منتخب کرتی ہے تو چیف سیکریٹری کی تعیناتی بھی صوبائی اسمبلی ہی کرے گی۔ یہ اصول ہمارے آئین کا ستون ہے، چنانچہ اس سے بڑھ کر آئین شکنی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وفاقی پارلیمانی آئین کی واضح تصریح کے برعکس غیر قانونی و غیرآئینی قوانین کے ذریعے وفاق (بذریعہ اسٹیب ڈویژن) صوبائی چیف سیکریٹری کی تعیناتی کرے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ آئین شکنی کیوں اور کیسے ہو رہی ہے؟
آئین کا آرٹیکل 97 فیڈرل ایگزیکٹو اتھارٹی کو فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ (وفاقی معاملات) تک محدود کرتا ہے اور صوبائی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر فیڈرل ایگزیکٹو اتھارٹی پھر بھی آئین کے برعکس صوبائی آئینی اختیارات کو مسلسل پامال کر رہی ہے۔
نہ صرف چیف سیکرٹری کا عہدہ بلکہ موجودہ سول سروس کا ڈھانچہ ہی نوآبادیاتی ورثہ ہے۔ہندوستان میں 1915 کے انڈین ایکٹ کے ذریعےصوبائی پوسٹس کو مرکزی سول سروسز کے لئے مختص کرنے”کا ظالمانہ قانون متعارف کرایا گیا جس کے تحت صوبوں کی اہم انتظامی پوسٹس کو مرکز کے ذریعے چلایا گیا تاکہ صوبوں کو زیرنگیں رکھا جا سکے۔ سول سروس آف انڈیا سیکرٹری آف سٹیٹ کے ماتحت کام کرتی تھی اور اسکا سیاستدانوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کلونیل سول سروس نے سیاستدانوں کے ماتحت کام کرنا تو دور کی بات بلکہ سیاستدانوں پر حکمرانی کرنا سیکھا تھا۔
جب پاکستان قائم ہوا تو آزادئ ہند ایکٹ کے سیکشن 10 کو (جو سینٹرل سروسزز کے بارے میں تھا) ختم کر دیا گیا کیونکہ جمہوری اور وفاقی پاکستان میں سیاستدانوں نے پولیٹکل ایگزیکٹو بننا تھا اور بیوروکریسی نے قانون کے تحت اس پولیٹکل ایگزیکٹو کے ماتحت کام کرنا تھا۔ اس طرح 1935 کے انڈیا ایکٹ کو جب عبوری طور پر نافذ کیا گیا تو اس میں سروسز کے متعلق سارے سیکشن حذف ہو چکے تھے، اس لیے کلونیل سول سروس کے احیاء کا کوئی آئینی جواز نہیں رہا تھا ۔
پاکستان کے ابتدائی دور میں جب ملک غلام محمد (جو کہ خود آئی سی ایس تھے) گورنر جنرل بنے تو انہوں نے مرکز اور صوبوں کے درمیان اُسی بدنام زمانہ سامراجی نظام کی طرز پر سی ایس پی رولز 1954 ایک فراڈ معاہدے کے ذریعے متعارف کروائے تاکہ صوبوں کی پوسٹس کو ریزرو کر کے صوبوں کو کنٹرول کیا جا سکے۔ عجب طرفہ تماشا ہے کہ یہ رولز کسی قانون سازی کے تحت وجود میں نہیں آنے بلکہ ایک معاہدہ کا فراڈ کیا گیا جو دراصل کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔
پاکستان میں آئی سی ایس باقیات نے 1954 سے لیکر 2022 تک حکومتوں کو مسلسل دھوکہ میں رکھا ہے اور ایسٹبلشمنٹ ڈویژن اسلام آباد کے ذریعے اس واضح فراڈ اور آئین شکن روایت کو ابھی تک قائم رکھا ہے ۔
چیف سیکرٹری کی تعیناتی کو موجودہ طریقہ کا کیا ہے ؟
سی ایس پی رولز (4) 15 میں چیف سیکریٹری کی تعیناتی کا طریقہ کار درج ہے اور صوبائی وزیرِ اعلیٰ سے محض مشاورت کا عمل رکھا گیا ہے مگرتعیناتی کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہے۔ چیف سیکرٹری کی تعیناتی کی یہ شق موجودہ آئین ، صوبائی سول سرونٹس ایکٹ اور رولز آف بزنس کے متضاد ہے ۔ جبکہ چیف سیکریٹری کی پوسٹ خالصتاً صوبائی پوسٹ ہے اور صوبائی اسمبلی کے قانون سازی اور کابینہ کے انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے چیف سیکریٹری کی تعیناتی کا آئینی و قانونی اختیار صرف وزیر اعلیٰ کے پاس ہے۔
اب کچھ چیف سیکریٹری کی غیر آئینی تعیناتی پر تھوڑی سی بحث ہو جائے
قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب وزیراعلیٰ صوبے کا چیف ایگزیکٹو ہے اور کابینہ ہی حکومت ہے تو کیا محکمہ جات کے وزراء اور سیکرٹریز کے زریعے نظامِ حکومت براہ راست اور بہت اچھے طریقے سے نہیں چلایا جا سکتا۔ چیف منسٹر کے با اختیار منصب کے ہوتے چیف سیکریٹری کی آخر کیا ضرورت ہے؟
حاصلِ کلام یہ ہے کہ جب چیف سیکریٹری کی تعیناتی غیر آئینی طریقے سے ہو اور یہ عہدہ بذاتِ خود بھی انتظامی طور پر گڈ گورننس اور سروس ڈیلوری کے لئے رکاوٹ ہو اور پھر سب سے بڑھ کر چیف سیکریٹری اپنی سروس پی اے ایس کا سربراہ بن کر صوبائی سروس اور سیاسی انتظامیہ سے علیحدہ اپنی سروس کا ایجنڈا نافذ کرے تو صوبائی حکومت اور سروسزز انتہائی کمزور ہو جاتی ہیں جس سے گڈ گورننس اور سروس ڈیلوری کا انتہائی متاثر ہونا لازمی ہے۔
انیس سو چون کےرولز کی کلونیل اور غیر آئینی پریکٹس کے تحت چیف سیکریٹری کو وفاق (بذریعہ اسٹیب ڈویژن) لگاتا چلا آیا ہے۔ چیف سیکرٹری کی بذریعہ اسٹیب ڈویژن تعیناتی درحقیقت آئین، قانون اور وفاقی پارلیمانی نظام کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اگر چیف سیکریٹری کا عہدہ رکھنا ہے تو اس کی واحد آئینی وقانونی صورت یہی ہے کہ صوبائی حکومت ،صوبائی سروس سے ا س پوسٹ پرتعیناتی کرے۔
چیف سیکرٹری ایک صوبائی پوسٹ ہے اور صوبائی حکومت کے پاس اسکے آئینی اختیارات ہیں مگر وفاقی حکومت آئین شکنی کر کے وفاقی پی اے ایس افسران تعینات کرتی ہے
یہ آئینی ضرورت ہے کہ چیف سیکریٹری کی تعیناتی صوبائی حکومت صرف صوبائی سول سرونٹس سے کرے ۔