روس، چین قربت سے بھارت فکرمند

[post-views]
[post-views]

برسوں کی سرحدی کشیدگی کے بعد بھارت اور چین آہستہ آہستہ تعلقات کی بحالی کی جانب بڑھتے دکھائی دیتے ہیں، تاہم باہمی شکوک و شبہات بدستور برقرار ہیں۔

گزشتہ ماہ کے آخر میں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی چین آمد کو دوطرفہ تعلقات میں برف پگھلنے کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ یہ دورے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاسوں کے سلسلے میں ہوئے، جو چین، روس، ایران اور پاکستان سمیت دس ملکوں پر مشتمل ایک یوریشین سیکیورٹی بلاک ہے۔

بھارت اور چین کے درمیان تنازع کی اصل جڑ ایک غیر متعین 3,440 کلومیٹر طویل سرحد ہے، جو پہاڑوں، جھیلوں اور برف پوش علاقوں کی وجہ سے مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے، اور اکثر دونوں ممالک کی افواج آمنے سامنے آ جاتی ہیں۔

جون 2020 میں وادی گلوان میں ہونے والی خونریز جھڑپ نے کشیدگی کو نئی سطح پر پہنچا دیا، جس میں 20 بھارتی اور 4 چینی فوجی مارے گئے۔ اس کے بعد کئی علاقوں میں فوجی تناؤ برقرار رہا۔

تاہم بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات نے دونوں فریقین کو کچھ اہم معاملات پر مفاہمت کی طرف مائل کیا۔ گزشتہ سال آخر میں لداخ کے حساس علاقوں پر معاہدہ طے پایا، اور جنوری میں دونوں ممالک نے براہ راست پروازیں بحال کرنے اور ویزہ پابندیاں نرم کرنے پر اتفاق کیا۔ اسی ماہ بھارتی یاتریوں کو چھ سال بعد تبت میں واقع مقدس کوہ کیلاش اور جھیل مانسرور کی زیارت کی اجازت بھی دی گئی۔

لیکن ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ بڑی رکاوٹیں باقی ہیں۔ بھارت کے لیے چین دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور بھارت چینی اشیاء، خاص طور پر ریئر ارتھ منرلز پر انحصار کرتا ہے، جو معیشت کے لیے اہم ہیں۔ سرحدی علاقوں میں امن تجارتی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔

ادھر چین بھی ہمالیائی سرحد پر امن چاہتا ہے کیونکہ وہ اس وقت تائیوان پر اپنی توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ بیجنگ چاہتا ہے کہ بھارت امریکہ پر انحصار کم کرے اور چینی کمپنیوں، سرمایہ کاروں اور انجینئرز کو بھارت میں بہتر مواقع دے، جن پر 2020 کے بعد پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔

ٹرمپ کے دوسری بار اقتدار میں آنے کے بعد واشنگٹن کی غیر یقینی پالیسیوں نے بھارت کو مجبور کیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ روابط کو متوازن رکھے۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان تجارتی معاہدہ بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے، اور صدر ٹرمپ نے بھارت سمیت کئی ممالک پر جوابی محصولات لگانے کی دھمکی دے رکھی ہے۔

اسی دوران، بھارت نے پاکستان کے ساتھ حالیہ سرحدی کشیدگی میں چینی ہتھیاروں کا استعمال ہوتے دیکھا، جس میں چینی ساختہ لڑاکا طیارے، میزائل اور دفاعی نظام شامل تھے۔ اس دوران ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے دونوں فریقین کے درمیان جنگ بندی میں کردار ادا کیا، جسے بھارت نے سختی سے مسترد کیا۔

روس کے حوالے سے بھی نئی تشویش جنم لے رہی ہے۔ یوکرین جنگ کے بعد روس نے چین پر توانائی، سرمایہ کاری اور درآمدات کے لیے انحصار بڑھا دیا ہے، جس سے بھارت کو خدشہ ہے کہ مستقبل میں روس بیجنگ کی حمایت کرے گا۔

دوسری جانب، چین نے حالیہ برسوں میں اروناچل پردیش پر دعوے کو مزید شدت سے دہرایا ہے، جسے وہ جنوبی تبت قرار دیتا ہے، جبکہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ مانتا ہے۔

اب دونوں ممالک اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ سرحدی تنازعہ جلد حل نہیں ہوگا، اس لیے وہ ایک ایسا عملی تعلق قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ایک دوسرے کے مفاد میں ہو اور کشیدگی سے بچا جا سکے، بغیر اس کے کہ وہ کسی عالمی اتحاد پر انحصار کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos