چین اور روس نے اتوار کے روز بحیرۂ جاپان میں مشترکہ بحری مشقوں کا آغاز کیا۔ ان مشقوں کا مقصد دونوں ممالک کے باہمی تعاون کو مزید مضبوط بنانا اور اُس عالمی نظام میں توازن پیدا کرنا ہے، جسے وہ امریکی قیادت کے زیرِ اثر سمجھتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں ماسکو اور بیجنگ نے اپنی سیاسی اور معاشی شراکت داری کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ فوجی تعاون کو بھی نمایاں طور پر بڑھایا ہے۔ فروری 2022 میں روس کی یوکرین پر چڑھائی کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات مزید گہرے ہو گئے ہیں۔
چین کی وزارتِ دفاع کے مطابق “جوائنٹ سی-2025” کے نام سے یہ مشقیں روسی بندرگاہ ولادی ووستوک کے قریب پانیوں میں شروع ہوئیں اور یہ تین دن تک جاری رہیں گی۔
ان مشقوں میں آبدوزوں کی ریسکیو کارروائیاں، اینٹی سب میرین آپریشنز، فضائی دفاع اور اینٹی میزائل آپریشنز کے ساتھ ساتھ سمندری جنگی تربیت بھی شامل ہے۔
چین کے چار بحری جہاز، جن میں گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائرز شاؤشنگ اور اُرومچی بھی شامل ہیں، روسی جہازوں کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔ مشقوں کے اختتام پر دونوں ممالک بحرالکاہل کے مخصوص علاقوں میں مشترکہ بحری گشت بھی کریں گے۔
چین اور روس 2012 سے ہر سال “جوائنٹ سی” کے نام سے مشترکہ مشقیں کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال یہ مشقیں چین کے جنوبی ساحل پر منعقد ہوئی تھیں۔
چینی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ اس سال کی مشقوں کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کی جامع اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مستحکم بنانا ہے۔
چین نے اب تک روس کی تین سال سے جاری جنگ کی کھلے عام مذمت نہیں کی اور نہ ہی روس سے فوجی انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔ یوکرین کے اتحادی، خاص طور پر امریکا، سمجھتے ہیں کہ چین نے ماسکو کو بالواسطہ مدد فراہم کی ہے۔
چین اپنے آپ کو غیر جانبدار ظاہر کرتا ہے اور اکثر جنگ بندی کی اپیل کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی مغربی ممالک پر الزام لگاتا ہے کہ وہ یوکرین کو ہتھیار فراہم کر کے جنگ کو طول دے رہے ہیں۔