چین سے لاحق بھارتی خدشات

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

بھارت کی خارجہ اور دفاعی پالیسی میں چین کا خوف ایک مستقل عنصر کے طور پر شامل رہا ہے۔ رام اُدھاو کی کتاب میں اس خدشے کا تفصیلی ذکر ملتا ہے کہ بھارت کو سب سے بڑا خطرہ پان-اسلامزم اور پان-منگولینزم سے لاحق ہو سکتا ہے، نہ کہ پان-یورپینزم سے۔ بھارت کے پہلے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے ۱۹۵۰ میں وزیراعظم نہرو کو خبردار کیا تھا کہ چین کی نظریاتی پھیلاؤ کی پالیسی دراصل اس کے نسلی، قومی اور تاریخی عزائم کا پردہ ہے۔ مگر نہرو نے “ہندی چینی بھائی بھائی” جیسے نعرے پر بھروسہ کیا، اور ۱۹۶۲ میں اروناچل پردیش (چین کا زانگ نان) کی جنگ میں بھارت کو عسکری اور سیاسی سطح پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

آج چین اور پاکستان کے درمیان تزویراتی اتحاد بھارت کے لیے ایک مستقل چیلنج بن چکا ہے۔ چین نہ صرف پاکستان کا پُراعتماد دفاعی اور اقتصادی ساتھی ہے، بلکہ وہ جدید ٹیکنالوجی، جنگی سازوسامان، سیٹ لائٹ سسٹمز اور بحری معاونت بھی فراہم کر رہا ہے۔ بھارت کو خدشہ ہے کہ چین جلد ہی پاکستان کو جدید ترین طیارے اور سیٹ لائٹ نیٹ ورک تک رسائی دے سکتا ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان کو اس امداد کی قیمت ادا کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ چین یہ سب تزویراتی بنیاد پر فراہم کر رہا ہے، جیسے سوویت یونین نے ۱۹۶۰ کی دہائی میں کیوبا سے مہنگی چینی خریدی تھی۔

Please subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

دوسری جانب، بھارتی حکومت کی اندرونی سیاست میں بھی عسکری بیانیہ ایک سیاسی ہتھیار بن چکا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی طرح، سلامتی کے جذبات کو انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ سابق بھارتی وزراء اور حزبِ اختلاف کے رہنما اس حکمت عملی کو خطرناک قرار دیتے ہیں۔

عالمی سطح پر امن کی دعائیں اور جنگی اخراجات کے تضاد کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ طاقت کے جنون نے عقل کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، اور جنگوں کے مارے لوگ اب صرف تاریخ کے صفحات اور جنت کی دعاؤں میں باقی رہ گئے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos