سول یا ملٹری ٹرائل؟

[post-views]
[post-views]

ماہ مئی کے واقعات کی روشنی میں شرپسندوں کی گرفتاری سے لے کر ان کے خلاف قائم مقدمات کی سماعت فوجی عدالتوں میں کئے جانے کا قومی سلامتی کمیٹی کا فیصلہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سوسائٹی کی طرف سے چیلنج ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ جمعرات کے روز سات رکنی بینچ نے حکم امتناعی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے گرفتار ہونے والے تمام افراد کا ڈیٹا طلب کرلیا۔

سات رکنی بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔ جسٹس فائز عیسا قاضی اور جسٹس طارق مسعود کے 9 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد موجودہ بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو پہلے بتادیا جائے جس پر اعتزاز احسن اور اٹارنی جنرل نے اعتماد کا اظہار کیا ۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے بنائے گئے 9رکنی بینچ پر اس کے سینئر رکن فائز عیسا قاضی کے اعتراض کے بعد جسٹس طارق مسعود نے یہ کہتے ہوئے کہ اگر 9 جج کیس کا فیصلہ دیتے ہیں تو اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟ فائز عیسا قاضی کے فیصلے کی توثیق کی۔ یہ کیس باقاعدہ سماعت کے مرحلےمیں داخل ہوچکا ہے تاہم وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر نے بیان دیا کہ جسٹس فائز عیسا قاضی نے بینچ میں اپنی شمولیت کا معاملہ متنازع نہیں بنایا بلکہ اس کی تشکیل ہی غیرقانونی ہے، اس کا جو بھی فیصلہ آئے گا غیر قانونی ہوگا اور اسے نظرانداز کرنے پر ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

ادھر مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں میں سول ملزمان کا ٹرائل پہلی مرتبہ نہیں ہورہا ، اس سے پہلے وہاں سے ملزموں کو سزائیں بھی ہوئیں۔

Don’t forget to Subscribe our channel & Press Bell Icon.

جبکہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ  ریاست اور حکومت کا موقف واضح ہے، اس لیے مشکل لگتا ہےکہ اگر سپریم کورٹ سے ملٹری ٹرائل کے خلاف فیصلہ آیا تو اس پر عمل ہو سکے۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ بینچ کی تشکیل ہی غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، ایسے بینچ کے فیصلےکو کس طرح تسلیم کیا جائےگا؟

اس سے قبل قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے راناثنا اللہ کا کہنا تھا کہ  دو سینئر ججز  نے اعتراض کیا اورکہا کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ نہیں ہوتا یہ غیرقانونی ہے، ان دونوں ججز کو فوری طور  پر بینچ سے علیحدہ کیا گیا، پتہ نہیں کس بات کی جلدی ہے، بابا رحمت نے بھی ایسا کیا، آج وہ عبرت کا نشان ہے۔

 راناثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ہم جس بحران کا شکار ہیں اس کی ایک وجہ تو عدالتوں کا انصاف نہ کرنا ہے، نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو کٹہرے میں لایا جائےگا، اگر آرمی ایکٹ 1952 کے تحت کسی کا ٹرائل نہیں ہوسکتا تو  اسے کالعدم قرار  دے دیں، یہ اسی لیے ہے کہ کوئی دفاعی نظام پر حملہ آور ہو تو اس کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا، یہ باقاعدہ طور پر دفاعی تنصیبات پر حملہ آور ہوئے، انہوں نےکورکمانڈر ہاؤس میں دستاویزات اور چیزوں کو جلایا، اس کی تحقیقات آرمی کی ٹیم ہی کرےگی۔

رپبلک پالیسی کا ماہ جون کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اگر جسٹس فائز عیسا قاضی بینچ میں شامل رہتے تو ان کا فیصلہ فوجی عدالتوں کے خلاف آتا،البتہ سپریم کورٹ کا ایک مرتبہ پھر تماشا بننا تکلیف دہ ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ 9مئی کو جب قومی احتساب عدالت نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا تو اس کے ردعمل میں تشدد کے ملک گیر واقعات اور احتجاج کے دوران فوجی املاک کی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ دیکھنے میں آیا ۔

اس واقعہ کو ملکی تاریخ کا سیاہ ترین باب قرار دیتے ہوئے فوج نے 25 مئی کو شہدا کیلئے یوم تکریم کے طور پر منایا اور واقعہ میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا۔

بعد میں حکومت نے مزید سخت اقدام اٹھاتے ہوئے ملزمان کے کیس پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں کے سپرد کرنے کا اعلان کیا ۔

گزشتہ دنوں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے واضح کیا کہ فوجی قوانین کے تحت مقدمات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تقاضے پورے کرتے ہیں جو منصفانہ ٹرائل کی بنیاد ہیں۔

انصاف کا حصول اور آئین پاکستان کے تقاضے پورے کرنے میں سپریم کورٹ کا کردار من حیث القوم باعث احترام ہے تاہم ماضی میں اس پر ہونے والے حملے اور حالیہ ہفتوں میں اس سے متعلق پیدا ہونے والی کیفیت انتہائی تشویشناک ہے ۔

کسی بھی ملک کے ادارے اسکے دستور کی پاسداری میں بنیادی کردار کے حامل ہوتے ہیں ۔ وطن عزیز جو شاید اب تک کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے ، قومی آئین اور اس کے تحت قائم اداروں کے تقدس کی حفاظت ہر پاکستانی پر عائد ہوتی ہے جس کیلئے ہر سیاسی جماعت کو اپنے کارکنوں میں مثبت سوچ پیدا کرتے ہوئے انھیں مناسب تربیت فراہم کرنا ہی ملک و قوم کی اصل خدمت ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos