پاکستان کا ماحولیاتی بحران سنگین

[post-views]
[post-views]

مشہد سلیم

اسلام آباد میں بدھ کے روز درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا، جو ملک کے دارالحکومت کی تاریخ کے گرم ترین دنوں میں شامل ہے۔ اس جھلستے ہوئے دن میں ایک وفاقی وزیر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: “اب بات صرف 2022 کے سیلابوں کی نہیں رہی، بلکہ اب تو ہم اسلام آباد میں ہر ہفتے آندھیوں اور ژالہ باری کا سامنا کرتے ہیں۔ ہم روزانہ ماحولیاتی تبدیلی کو محسوس کر رہے ہیں۔”

یہ بیان صرف ایک سادہ مشاہدہ نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت کا اظہار تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی اب پاکستان کے لیے سب سے بڑا وجودی خطرہ بن چکی ہے۔ حکومت کی جاری کردہ پاکستان اکنامک سروے 2024-25 میں واضح انداز میں کہا گیا ہے کہ ملک کو شدید گرمی، بے ترتیب بارشوں اور پانی کی قلت جیسے اثرات کا سامنا ہے، جس سے معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

ملک کے بیشتر حصے ان دنوں شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں، جہاں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ہے۔ حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے ماحولیاتی اقدامات کے تحت اپنے جاری اخراجات کا 6.9 فیصد اور ترقیاتی بجٹ کا 8.2 فیصد مختص کیا ہے، جو کہ مجموعی طور پر 700 ارب روپے بنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی فوسل فیول کے استعمال کی حوصلہ شکنی کے لیے کاربن لیوی بھی عائد کی گئی ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ہر سال 40 سے 50 ارب ڈالر درکار ہیں تاکہ وہ 2050 تک ماحولیاتی تباہی سے بچ سکے۔ سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد اختر نے کانفرنس میں اسی نکتہ پر زور دیا۔ یہ مالی وسائل صرف ملکی کوششوں سے ممکن نہیں بلکہ نجی شعبے، حکومت اور عالمی اداروں کی مشترکہ کوششوں سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ کے بعد کی پریس کانفرنس میں میڈیا کے کردار کو سراہتے ہوئے مہم کی تعریف کی، جس نے ماحولیاتی شعور اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا یہ اعتراف اس امر کا اشارہ ہے کہ ماحولیاتی آگہی اور اجتماعی شعور کے بغیر پالیسی پر عملدرآمد ممکن نہیں۔

اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان صرف ہنگامی امداد اور وقتی اقدامات سے آگے بڑھ کر پائیدار ماحولیاتی حکمت عملی اپنائے۔ جدید آبپاشی نظام، سبز انفراسٹرکچر، متبادل توانائی، اور شہری منصوبہ بندی جیسے اقدامات فوری طور پر درکار ہیں۔

پاکستان، جو دنیا کے سب سے کم کاربن پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، ماحولیاتی اثرات کا سب سے زیادہ شکار بھی ہے۔ اب صرف عالمی اداروں سے امداد کا مطالبہ کافی نہیں بلکہ پاکستان کو شفافیت، سنجیدگی اور عملی منصوبہ بندی کے ساتھ عالمی فورمز پر خود کو ماحولیاتی قیادت کے طور پر منوانا ہو گا۔

ماحولیاتی بحران وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے — اور یہ چیلنج اب کسی ایک طبقے، وزارت یا ماہر ماحولیات کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ یہ پاکستان کے ہر شہری کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم نے اب بھی سنجیدگی نہ دکھائی تو آنے والے دن صرف گرمی اور سیلاب نہیں بلکہ ہمارے قومی مستقبل کو بھی بہا لے جائیں گے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos