پاکستان ماحولیاتی ناانصافی کا شکار: امداد کی غیر منصفانہ تقسیم

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

پاکستان میں مون سون بارشوں کے نتیجے میں حالیہ سیلاب اور جانی و مالی نقصان نے ماحولیاتی بحران کو ایک اخلاقی اور عالمی ناانصافی کے مسئلے میں بدل دیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، مصدق ملک نے اسے صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ انصاف کا بحران قرار دیا ہے۔ ان کے بقول، “یہ فنڈنگ گیپ نہیں، بلکہ اخلاقی خلا ہے”۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اب تک کم از کم 32 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں بے گھر اور متاثر ہو چکے ہیں۔ 2025 کے موسمیاتی خطرات کے انڈیکس میں پاکستان سب سے زیادہ متاثرہ ملک قرار پایا، حالانکہ اس کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ محض 0.5 فیصد ہے۔ 2022 میں تباہ کن سیلاب نے ملک کا ایک تہائی حصہ ڈبو دیا تھا، 33 ملین افراد متاثر اور 30 ارب ڈالر سے زائد کے نقصانات ہوئے۔

باوجود اس کے کہ پاکستان کو موسمیاتی خطرات کا شدید سامنا ہے، عالمی ماحولیاتی فنڈز کا 85 فیصد صرف دس بڑے ممالک کو دیا جا رہا ہے، جو خود عالمی آلودگی کے بڑے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کو اب تک صرف 2.8 ارب ڈالر کی امداد ملی ہے، جبکہ ماہرین کے مطابق اسے ہر سال 40 سے 50 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

پاکستان میں 13,000 سے زائد گلی شیئرز موجود ہیں جو درجہ حرارت بڑھنے سے پگھل رہے ہیں۔ اس پگھلاؤ سے سیلاب، زمین و زندگی کا نقصان، تاریخی ورثے کی تباہی، پانی کی قلت اور صحت کی سہولیات کی تباہی جیسے چیلنجز پیدا ہو رہے ہیں۔ سندھ میں صدیوں پرانے مدارس، مساجد، اسکول اور آثار قدیمہ پانی میں بہہ گئے۔

ایم نسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، پاکستان میں بچوں اور بزرگوں کے لیے نہ صحت کی سہولتیں کافی ہیں نہ ہی آفات سے بچاؤ کے نظام۔ یہ مظلوم طبقے ماحولیاتی تبدیلی کے محاذ پر سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

اگر عالمی برادری نے انصاف پر مبنی موسمیاتی مالی امداد کی فراہمی کو یقینی نہ بنایا، تو پاکستان صرف قدرتی آفات کا ہی نہیں، بلکہ عالمی ناانصافی کا بھی مسلسل نشانہ بنتا رہے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos