پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں ترمیم کا اختیار صرف اور صرف پارلیمان کو حاصل ہے۔ یہ اصول نہ صرف جمہوریت کی روح ہے بلکہ آئینی بالادستی کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔ تاہم آج یہ سوال شدت سے جنم لے رہا ہے کہ کیا ایسی پارلیمان جو اپنے مینڈیٹ کے حوالے سے ہی متنازع ہے، آئین میں ترمیم کا اختیار رکھتی ہے؟
ریپبلک پالیسی ویب سائٹ فالو کریں
موجودہ اسمبلی کے حوالے سے سنگین شکوک و شبہات موجود ہیں۔ ایک جانب دھاندلی کے الزامات اس کا تعاقب کرتے ہیں تو دوسری جانب سینکڑوں انتخابی عذرداریوں پر فیصلے تاخیر کا شکار ہیں۔ اس صورتحال نے یہ تاثر مزید گہرا کر دیا ہے کہ موجودہ پارلیمان عوامی مینڈیٹ کی حقیقی ترجمان نہیں۔ اگر ایسی غیر نمائندہ اسمبلی آئین میں ترمیم کرے تو یہ نہ صرف آئین بلکہ جمہوریت کے ڈھانچے کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوگا۔
ریپبلک پالیسی یوٹیوب فالو کریں
آئینی ترامیم کا اصل مقصد نظام کی بہتری، عوامی حقوق کا استحکام اور اداروں کی تشکیلِ نو ہونا چاہیے۔ لیکن اگر یہ اختیار ایسی پارلیمان کے ہاتھ میں ہو جس پر عوامی اعتماد موجود نہ ہو، تو اس بات کا خدشہ بڑھ جاتا ہے کہ ترامیم اصلاحات کے بجائے محض مخصوص مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بن جائیں گی۔ اس سے طاقتور گروہوں کو مزید قانونی جواز ملے گا اور اصلاحات کی اصل روح پس منظر میں چلی جائے گی۔
ریپبلک پالیسی کے نزدیک آئینی ترامیم صرف اسی پارلیمان کا حق ہیں جو شفاف انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئی ہو اور جس پر عوامی نمائندگی کے حوالے سے کوئی سوالیہ نشان نہ ہو۔ آئین سازی دراصل ریاست اور معاشرے کے مستقبل کی تشکیل کا عمل ہے، لہٰذا اس میں کسی بھی قسم کی غیر شفافیت یا مصنوعی نمائندگی آئینی بحران کو جنم دے سکتی ہے اور جمہوریت کے تسلسل کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
ریپبلک پالیسی فیس بک فالو کریں
پاکستان کے لیے اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ آئینی عمل کو عوامی اعتماد کے تابع رکھا جائے۔ جب تک انتخابی تنازعات حل نہیں ہوتے اور پارلیمان کی حیثیت غیر متنازع ثابت نہیں ہو جاتی، آئینی ترامیم کا عمل مؤخر کیا جانا ہی بہتر ہے۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف آئین کے تقدس کو برقرار رکھے گا بلکہ جمہوریت کو طویل المدتی استحکام بھی فراہم کرے گا۔