Premium Content

کرپشن اور ہمارا معاشرہ

Print Friendly, PDF & Email

مصنف:  طاہر مقصود

مصنف پنجاب پولیس سے ریٹائرڈ ایس ایس پی ہیں۔

چند یوم قبل ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کی پولیس کو کرپشن یعنی بدعنوانی میں نمبر 1 قرارد دیا تھا لیکن اچھی بات یہ تھی کی یہ درجہ بندی پولیس کے بارے میں تمام تاثر (جنرل پرسپشن) کی بنیاد پر تھی اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پولیس کے پاس عام طور پر دو فریقین آتے ہیں جن میں سے ایک فریق غلط ہوتا ہے اور خلاف فیصلہ ہونے کی وجہ سے پولیس کو برا بھلا کہتا ہے لیکن کچھ حقیقت بھی ہے کہ بڑے افسران کیمپ آفس کے نام پر اپنے گھروں میں استعمال شدہ گیس، بجلی اور ٹیلیفون وغیرہ کے بل خزانہ سرکار سے ادا کرتے ہیں اگرچہ بجلی کی ترسیل بہتر ہو گئی ہے مگر پھر  بھی جنریٹر کا ایندھن ذاتی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ایک پولیس افسر کو میں جانتا ہے جس نے گھر کی چھت پر ٹینک رکھا ہوا تھا۔ جس میں پٹرول ذخیرہ کیا ہوتا تھا اور پائپ کے ذریعہ اس ٹینک کو جنریٹر سے منسلک کیا گیا تھااور بجلی کی موجودگی کے باوجود جنریٹر چلا کر بجلی حاصل کی جاتی تھی۔افسران نے جائے تعیناتی پر گھر کی موجودگی کے باوجود دوسرے شہروں خاص طور پر لاہور میں بھی ایک بجلی گھر اپنے قبضہ میں رکھا ہوا ہے۔ ایک دوست نے بتایا کہ ان کے سنیئر افسر نے گزشتہ ماہ چار ہزار لیٹر پٹرول استعمال کیا تھا اور صاحب پانچ سرکاری گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں سالانہ آڈت کے وقت کوئی نہ کوئی جواز بھی پیش کر دیا جائے گا۔ یہ بات بھی عام ہے کہ افسران پیشگی بل بنوا کر مختلف مدات سے رقم نکلوا کر پاس رکھ لیتے ہیں اور یقیناً یہ رقم افسران درست اور جائز کاموں میں استعمال کرتے ہوں گے مگر عام تاثر تو غلط ہی ہو گا۔

Read More: https://republicpolicy.com/punjab-police-ma-taraqi-ka-nizam/

تعزیرات پاکستان کے باب 9 اور انسداد رشوت ستانی ایکٹ 1947ء میں کرپشن /بد عنوانی سے متعلقہ جرائم کا ذکر ہے اور یہ جرائم سرکاری ملازمین کی بدعنوانی سے متعلقہ ہیں تو کیا سمجھ لینا چاہیے کہ کرپشن کے مرتکب صرف سرکاری ملازمین ہیں۔

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق ذاتی مفاد کے حصول کے لیے میسر اور عطاء کیے گئے اختیارات  کا بے جا استعمال کرپشن اور بدعنوانی کہلاتا ہے۔

بدعنوانی اور کرپشن کا عفریت معاشرے میں سرایت کر چکا ہے اور اندر ہی اندر سے یہ ناسور معاشرے کو کینسر کی طرح کھوکھلا کر رہا ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ آپ فائیوسٹار ہوٹل میں سکیورٹی گارڈ کو سو روپے دے کر ممنوعہ جگہ پر گاڑی پارک کرسکتے ہیں۔ پرائیوٹ ہسپتالوں میں سکیورٹی گارڈ کو خوش کر کے انتہائی نگہداشت والے ورڈ بلکہ آپریشن تھیٹر میں بھی مریض سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ قصائی گوشت کو پانی لگا کر بیچ رہا ہے۔ دودھ فروش پانی اور کیمیکل ملا دودھ فروخت کر رہے ہیں۔ ڈاکٹرز لیبارٹری ٹیسٹ اور دوائیوں پر کمیشن کے طور پر عمرہ کرتے ہیں۔ عدالتی اہلکار بخشیش اور مبارک بادی کے نام پر سائلین سے رقم بٹورتے ہیں۔ وکلاء فیس لے کر گنہگار کو بے گناہ اور بے گناہ کو گنہگار ثابت کرتے ہیں۔ انجینئر ٹھیکیداروں سے کمیشن لے رہے ہیں۔ پٹرول پمپ پر تیل ڈالنے والے شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ تیل کم ڈال کر زیادہ رقم وصول کرلے ۔ ٹول پلازہ پر رقم لینے والا جانتا ہے کہ ٹول کی رسید نہ دی جائے۔ فیکٹری ملازمین کے لیے بنائی گئی فیئر پرائس شاپ کا مینجر فیکٹری ملازمین کی بجائے دیگر لوگوں کو سامان فروخت کر دیتا ہے تاکہ کچھ زائد رقم اپنے لیے حاصل کر سکے۔ میرے نزدیک یہ تمام بھی کرپشن اور بدعنوانی کے زمرہ میں آتے ہیں۔ جسے معاشرہ بدقسمتی سے قبول کر چکا ہے۔

Read More: https://republicpolicy.com/international-anti-corruption-day-and-the-rising-corruption-in-pakistan/

سکیورٹی کے نام پر مختلف اہم شخصیات کو پولیس گارد مہیا کی گئی ہے جو عام طور پر کنسٹیبلان پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ کنسٹیبلان ، ڈرائیور اور گھریلو کام کے استعمال کے لیے جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تویہ کنسٹیبلان رشتہ داروں کو بھی فراہم کر دیے جاتے ہیں یو یقیناً یہ بھی کرپشن ہی ہے۔ کرپشن کی وجہ سے نہ صرف اخلاقی قدریں تباہ ہوتی ہیں بلکہ سرکاری اداروں پر عوامی اعتماد میں بھی کمی آتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اینٹی کرپشن کے متعلق قوانین کو مزید واضح کیا جائے اور انسداد رشوت ستانی کے اداروں کو آزادانہ کام کرنے دیا جائے لیکن یہ اس وقت ممکن ہو سکے گا جب پولیٹیکل ایگزیکٹیو اپنا اثرو رسوخ ہر قسم کے تعصب سے بالا تر ہو کر استعمال کرے۔ فی الحال تو نظر نہیں آرہا کیونکہ ابھی کل ہی عبدالرحمن خان سٹوری چھپی ہے۔ جس کے مطابق چیف منسٹر سیکرٹریٹ اقرباء پروری، کرپشن اور بلیک میلنگ کی نئی طرز حکومت متعارف کروا رہا ہے۔

جہاں چھوٹی کرپشن معاشرے کی اخلاقی اقدار کو تباہ کرتی ہے توبڑی کرپشن جس کے الزامات بڑے سیاسی رہنماؤں پر اور صاحب اختیار بڑے سرکاری افسران اور اعلیٰ عدلیہ کے ممبران پر لگتےہیں سے نہ صرف ملک کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ ملکی معیشت پر بھی انتہائی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ابھی پرسوں ہی خبر چھپی تھی کہ خیبرپختوانخوا حکومت سرکاری ہیلی کاپٹر کے غیر قانونی استعمال کو ایک قانون کے ذریعے جائز قراردے دیا ہے۔

الغرض معاشرہ سے بدعنوانی اور کرپشن کے خاتمے کے لیےبڑے آپریشن کی ضرورت ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos