تنقیدی جائزہ: خوف اور نفرت کا سماج — پاکستان کا تہذیبی و سیاسی المیہ

[post-views]
[post-views]

نفیسہ عارف

پاکستانی معاشرہ اس وقت جس جذباتی، فکری اور تہذیبی بحران کا شکار ہے، اس کی بنیاد دو مہلک عناصر پر ہے: خوف اور نفرت۔ یہ دونوں عناصر محض عارضی سیاسی ہتھکنڈے نہیں بلکہ ایک منظم سماجی تشکیل کا حصہ بن چکے ہیں، جس نے ریاست، اداروں اور عام شہریوں کے درمیان اعتماد کو گھن کی طرح چاٹ لیا ہے۔

ریاستی خوف: طاقت کا نیا معیار

ریاستی اداروں، بالخصوص عسکری و انتظامی حلقوں نے گزشتہ چند دہائیوں میں “خوف” کو بطور حکومتی پالیسی اپنایا۔ عوامی آواز کو دبانے، سیاسی اختلاف کو کچلنے، اور بیانیے پر قبضہ جمانے کے لیے جو حربے استعمال کیے گئے، انہوں نے جمہوری روایات کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ جب شہری اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانے سے پہلے سو بار سوچے، جب میڈیا سنسر شپ کو آزادیٔ اظہار کی جگہ لے لے، اور جب قانون کی تشریح طاقتوروں کے مفاد میں کی جائے — تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خوف کو ادارہ جاتی شکل دی جا چکی ہے۔

نفرت: ردعمل یا پالیسی؟

دوسری طرف، اس ریاستی خوف کا فطری ردعمل عوامی سطح پر “نفرت” کی صورت میں ابھرتا ہے۔ لیکن یہ نفرت صرف حکومتی اداروں تک محدود نہیں رہتی؛ یہ سماجی سطح پر بھی سرایت کر جاتی ہے۔ لسانی، مذہبی، مسلکی، اور سیاسی تقسیم اس قدر گہری ہو چکی ہے کہ اب ہم بطور قوم ایک دوسرے کو سننے، سمجھنے اور قبول کرنے سے قاصر ہیں۔ سوشل میڈیا پر زہریلا بیانیہ، مساجد و منبروں پر اشتعال انگیز خطبات، اور سیاسی جلسوں میں مخالفین کو غدار، کافر یا ایجنٹ قرار دینا — یہ سب اس اجتماعی نفسیاتی بگاڑ کی علامات ہیں۔

المیہ کی جڑیں: تاریخی تناظر میں

یہ مسئلہ محض حالیہ سیاسی واقعات کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک تاریخی تسلسل کا حصہ ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی طاقت کی سیاست نے عوامی اختیار کو محدود رکھا۔ آئین کی بالادستی کو بارہا معطل کیا گیا، اور مقتدر حلقوں نے عوامی نمائندوں کو کمزور رکھنے کی پالیسی اپنائی۔ یہی وجہ ہے کہ آج سیاست عدم برداشت کا شکار ہے، عدلیہ متنازع ہے، اور انتظامیہ اعتماد سے محروم ہے۔

سماجی معاہدے کی ضرورت: نیا بیانیہ، نیا راستہ

سوال یہ ہے کہ اس بحران کا تدارک کیسے ممکن ہے؟ جواب واضح ہے: ایک نیا سماجی معاہدہ۔ ایسا معاہدہ جو فرد کو بااختیار بنائے، اختلاف کو دشمنی نہ سمجھے، اور اداروں کو آئین کا تابع بنائے۔ جب تک عدل و انصاف محض نعروں تک محدود رہے گا، اور طاقتور قانون سے بالاتر تصور کیے جاتے رہیں گے، اس وقت تک نہ خوف ختم ہوگا اور نہ نفرت۔

یہ معاہدہ صرف قانون سازی یا بیانیاتی تبدیلی سے نہیں آئے گا، بلکہ اس کے لیے ایک ہمہ گیر ادارہ جاتی اصلاحات، میڈیا کی آزادی، عدلیہ کی خودمختاری، اور تعلیم میں تنقیدی شعور کی شمولیت ناگزیر ہے۔ ہمیں اختلافِ رائے کو جمہوریت کی خوبصورتی کے طور پر اپنانا ہوگا، نہ کہ اسے بغاوت سمجھ کر کچلنا۔

نتیجہ: امن کا راستہ صرف انصاف سے

اگر پاکستان کو ایک پُرامن، باوقار اور مستحکم ریاست بننا ہے تو اسے “طاقت سے امن” کے فریب سے نکل کر “انصاف سے امن” کے اصول کو اپنانا ہوگا۔ یہ تبھی ممکن ہے جب خوف کی حکمرانی ختم ہو، اور نفرت کی سیاست کو رد کر کے مکالمے، مصالحت اور شراکت داری کی راہ اپنائی جائے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos