عبداللہ کامران
پاکستان آہستہ آہستہ کرپٹو کرنسیوں اور ڈیجیٹل اثاثوں کو قانونی اور ادارہ جاتی طور پر تسلیم کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ حالیہ پیش رفت میں وفاقی کابینہ نے “پاکستان ورچوئل اثاثہ جات ریگولیٹری اتھارٹی” کے قیام کی منظوری دی ہے، جو ملک میں ورچوئل اثاثہ جات سے متعلق خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو لائسنس دینے، نگرانی کرنے اور ضوابط مرتب کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔ وزارت خزانہ کے مطابق، اس اقدام کا مقصد بین الاقوامی اداروں جیسے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس، عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کے تقاضوں کے مطابق ضابطہ سازی کرنا ہے۔
بظاہر یہ ایک اہم اور انقلابی قدم محسوس ہوتا ہے، تاہم ابھی تک اس ’’جامع قانونی و ادارہ جاتی فریم ورک‘‘ کی مکمل تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ سرمایہ کار، ماہرین اور عام شہری یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس اقدام سے عملاً کیا نتائج برآمد ہوں گے۔
سرکاری بیانات کے مطابق، یہ مجوزہ ادارہ صارفین کے تحفظ، منی لانڈرنگ کی روک تھام، اور سائبر خطرات سے نمٹنے جیسے اقدامات کی نگرانی کرے گا۔ یہ سب بظاہر اہم نکات ہیں، مگر اصل سوال یہ ہے کہ ان کا اطلاق کیسے ہوگا؟ کیا کرپٹو اثاثوں پر ٹیکس عائد ہوگا؟ کیا ان کی خرید و فروخت اور کان کنی کو قانونی حیثیت دی جائے گی؟ اور کیا بین الاقوامی کرپٹو پلیٹ فارمز کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دی جائے گی؟ ان سوالات کے جوابات ابھی واضح نہیں ہیں۔
یہ خدشات بھی سامنے آئے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے کرپٹو کو اپنانے میں بیرونی دباؤ کا بھی عمل دخل ہو سکتا ہے۔ چند ماہ قبل “پاکستان کرپٹو کونسل” کے قیام کا اعلان اس وقت کیا گیا جب ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا، جس کے ارکان کا تعلق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی کاروباری حلقوں سے تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، کرپٹو معاملات اس وقت بھی زیرِ بحث آئے جب ٹرمپ اور پاکستانی فوجی قیادت کے درمیان حالیہ ملاقات ہوئی۔ بین الاقوامی میڈیا میں بھی ٹرمپ خاندان کے کرپٹو سے متعلق مالی مفادات پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، جن میں اخلاقی تضادات اور مفادات کے ٹکراؤ کے خدشات شامل ہیں۔
ایسے میں پاکستان کو نہایت ہوشیاری سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ کرپٹو بلا شبہ ایک جدید اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی ہے، جو مالیاتی نظام میں انقلابی تبدیلی لا سکتی ہے، مگر اس کے ساتھ خطرات بھی موجود ہیں۔ دھوکہ دہی، قیمتوں میں شدید اتار چڑھاؤ، قانونی ابہام اور عوام کی کم مالیاتی آگہی جیسے مسائل ہمارے ملک میں سنگین نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com
اگر حکومت واقعی سنجیدگی سے اس شعبے کو فروغ دینا چاہتی ہے تو اسے خالصتاً قومی مفاد کو مدنظر رکھنا ہوگا، نہ کہ بیرونی مفادات کو۔ اس کے لیے ایک شفاف، مشاورتی اور جامع پالیسی ترتیب دینا ناگزیر ہے، جس میں ماہرین، مقامی سرمایہ کار، تعلیمی و سماجی ادارے شامل ہوں۔
پاکستان کو چاہیے کہ دیگر ممالک کے ماڈلز سے سیکھے۔ جاپان اور سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک نے کرپٹو کے لیے واضح اور محفوظ فریم ورک بنائے ہیں، جبکہ چین نے اس شعبے کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سنگاپور نے درمیانی راستہ اختیار کیا ہے جہاں ضوابط اور جدت میں توازن رکھا گیا ہے۔
پاکستان کو اپنا راستہ خود متعین کرنا ہوگا، جو مقامی معیشت، قانونی نظام اور سماجی ڈھانچے کے مطابق ہو۔ بیرونی دباؤ یا مفادات پر مبنی پالیسیاں نہ صرف نقصان دہ ہو سکتی ہیں بلکہ اعتماد کے بحران کو جنم دے سکتی ہیں۔
اگر اس سفر کو کامیاب بنانا ہے تو عوامی اعتماد، شفافیت اور قومی مفاد کو مرکزی حیثیت دی جائے۔ پالیسی کو عوام کے سامنے لایا جائے، اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے، اور شہریوں کے تحفظ کے لیے مؤثر نظام بنایا جائے۔
ریاست کو یہ بھی واضح کرنا ہوگا کہ یہ نیا ادارہ دیگر قومی اداروں جیسے اسٹیٹ بینک، سی کیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن، فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کس طرح تعاون کرے گا۔ اگر اداروں میں ہم آہنگی نہ ہوئی تو ضوابط صرف کاغذی کارروائی تک محدود رہیں گے۔
پاکستان ایک نئے مالیاتی دوراہے پر کھڑا ہے۔ کرپٹو اور ڈیجیٹل اثاثوں کو تسلیم کرنا ترقی، سرمایہ کاری اور جدت کی نئی راہیں کھول سکتا ہے، مگر یہ راستہ صبر، حکمت، اور خودمختاری سے طے کرنا ہوگا۔ جلد بازی، سیاسی مصلحت یا بیرونی دباؤ کے تحت کیے گئے فیصلے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس شعبے پر کھلے دل سے قومی سطح پر بحث کا آغاز کرے۔ یہ صرف ضابطہ سازی کا نہیں بلکہ مستقبل کی معیشت کا معاملہ ہے، اور اس میں صرف وہی پالیسیاں کامیاب ہوں گی جو عوام، معیشت اور ریاست کے وسیع تر مفاد میں ہوں۔
ریاست کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا، اور ہر فیصلے سے قبل یہ ضرور دیکھنا ہوگا کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں اور کن ہاتھوں میں اپنے مستقبل کی کنجی تھما رہے ہیں۔