نفیسہ عارف
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بیشتر منتخب نمائندے—خواہ وہ سینیٹ میں ہوں، قومی اسمبلی میں یا صوبائی اسمبلیوں میں—نااہلی، مقدمات، گرفتاریوں اور جبر کے مختلف مراحل سے گزر چکے ہیں۔ 9 مئی 2023 کے واقعات کے بعد پارٹی پر جو آسمان گرا، اس کے بعد سیاسی محاذ ہو یا عدالتی دروازہ، پی ٹی آئی نے ہر چال آزمائی، مگر قید و بند کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
سوال یہ ہے کہ اب جب کہ قانونی چارہ جوئی، عوامی احتجاج، اور بین الاقوامی آوازیں بھی کوئی واضح سیاسی ریلیف نہیں لا سکیں، تو کیا اب بھی کوئی سیاسی راستہ باقی ہے؟ کیا عمران خان اور دیگر اسیرانِ سیاست کے لیے جیلوں کے دروازے کھلنے کا کوئی امکان موجود ہے؟
یہ کالم انہی پیچیدہ سوالات کا تجزیہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔
احتجاجی سیاست کی ناکامی: ایک وقتی یا مستقل بند گلی؟
پی ٹی آئی کی مزاحمتی حکمت عملی کا محور سڑکوں پر احتجاج، لانگ مارچ، جلسے جلوس اور عدلیہ سے رجوع رہا۔ مگر ریاستی ردعمل نہ صرف سخت بلکہ مسلسل رہا۔ سوشل میڈیا پابندیاں، پارٹی دفاتر کی بندش، کارکنان کی گرفتاریاں اور میڈیا بلیک آؤٹ نے عوامی مؤثر رسائی محدود کر دی۔ اس احتجاجی سیاست کا فوری نتیجہ تو یہ رہا کہ سیاسی قیدیوں کے لیے فضا مزید تنگ ہو گئی۔
البتہ یہ کہنا کہ احتجاج مکمل ناکام رہا، بھی سطحی تجزیہ ہو گا۔ درحقیقت، موجودہ دباؤ نے پی ٹی آئی کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں اب صرف احتجاج نہیں، بلکہ متبادل سیاسی حکمتِ عملی ناگزیر ہو چکی ہے۔
عدالتی فورمز: انصاف یا مایوسی کا راستہ؟
پی ٹی آئی نے عدالت عظمیٰ، ہائی کورٹس اور الیکشن کمیشن کے خلاف درجنوں درخواستیں دائر کیں، مگر نتائج امیدوں سے ہم آہنگ نہ رہے۔ بانی چیئرمین عمران خان پر مختلف کیس میں سزائیں سنائی گئیں، بشریٰ بی بی بھی مقدمات کی زد میں ہیں۔ بعض فیصلوں نے عدلیہ کی آزادی پر سوالات بھی اٹھائے۔
تاہم، آئین کے تحت “منصفانہ ٹرائل کا حق” اور شق 199 کے تحت ہائی کورٹس کو بنیادی حقوق کے تحفظ کا اختیار، اب بھی ان سیاسی قیدیوں کے لیے امید کا چراغ ہے۔ اگر شفاف عدالتی نظام بحال ہو جائے یا بین الاقوامی دباؤ موثر ہو، تو قانونی ریلیف ممکن ہے۔ مگر یہ سب حالات کی تبدیلی سے مشروط ہے۔
بین الاقوامی دباؤ: امید یا خودفریبی؟
یورپی یونین، اقوام متحدہ، اور بعض مغربی ممالک کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید ضرور ہوئی، مگر کوئی ٹھوس سفارتی یا معاشی دباؤ تاحال سامنے نہیں آیا۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک “ریاستی استحکام” کو “جمہوری آزادیوں” پر ترجیح دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
البتہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ، جی ایس پی پلس اسٹیٹس، اور آئی ایم ایف جیسے مالیاتی ادارے اگر انسانی حقوق کی بنیاد پر کڑی شرائط عائد کریں، تو ریاست پر بیرونی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ اس کے لیے پی ٹی آئی کو سفارتی محاذ پر منظم اور مؤثر لابنگ کرنی ہو گی، نہ کہ صرف سوشل میڈیا پر ہمدردیاں سمیٹنے پر اکتفا۔
اندرونی مفاہمت: کیا متقدّره کے ساتھ مکالمہ ممکن ہے؟
اگرچہ اس وقت متقدّره اور پی ٹی آئی کے درمیان شدید بداعتمادی ہے، مگر تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سیاسی قوت کو مکمل نظرانداز کرنا پائیدار حکمتِ عملی نہیں رہی۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور حتیٰ کہ ایم کیو ایم بھی شدید ٹکراؤ کے بعد مذاکرات کی میز پر واپس آ چکی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی اپنے بیانیے کی شدت میں نرمی لا کر “قومی مفاہمت” کی کسی راہ پر آمادہ ہو سکتی ہے؟ اگر عمران خان براہِ راست یا بالواسطہ طور پر کسی “چارٹر آف ری کنسٹرکشن” کی بات چیت کی طرف بڑھتے ہیں، تو یہ داخلی سیاسی قیدیوں کے لیے بھی امید کا دروازہ بن سکتا ہے۔
آئندہ انتخابات: بازی پلٹنے کا موقع یا مزید بندش؟
آنے والے ضمنی اور بلدیاتی انتخابات، اور 2028 کے عام انتخابات—یہ وہ سیاسی لمحات ہیں جو قیدی قیادت کو واپس قومی دھارے میں لا سکتے ہیں، بشرطیکہ پارٹی تنظیمی سطح پر زندہ رہے اور عوامی حمایت کمزور نہ ہونے پائے۔ اگر پی ٹی آئی ان انتخابات میں عدالتوں کے ذریعے یا سیاسی اتحادیوں کے ساتھ شرکت کا راستہ نکال لے، تو سیاسی بحالی کا امکان بڑھ سکتا ہے۔
نتیجہ: بند راستوں میں امید کا چراغ
حالات یقیناً سخت ہیں۔ عمران خان، بشریٰ بی بی اور درجنوں رہنما جیلوں میں ہیں، اور پارٹی کے کندھوں پر سیاسی بیانیہ بھی ہے اور قانونی جنگ بھی۔ مگر سیاسی تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ بند گلی میں کبھی کبھار ایک کھڑکی کھل جایا کرتی ہے۔
اس وقت پی ٹی آئی کو اپنی حکمتِ عملی پر سنجیدگی سے نظرثانی کرنی ہو گی: جارحانہ بیانیہ کب مفاہمانہ طرزِ گفتگو میں ڈھلتا ہے، کب قانونی جنگ سیاسی دباؤ کے ساتھ جڑی جاتی ہے، اور کب قوم کو بیانیے سے بڑھ کر حل دیا جاتا ہے—یہی فیصلہ کرے گا کہ قیدی کب رہائی پاتے ہیں، اور کیا عمران خان ایک بار پھر اقتدار کی راہداریوں میں داخل ہو سکتے ہیں یا نہیں۔