سیاسی اصول یا مفاد؟ مسلم لیگ (ن) کی نظریاتی ساخت کا بدلتا منظرنامہ

[post-views]
[post-views]

Mubashar Nadeem

پاکستان کی جمہوریت کا المیہ یہ نہیں کہ اسے بار بار غیرجمہوری قوتوں کی مداخلت کا سامنا رہا ہے، بلکہ یہ ہے کہ جمہوری جماعتیں خود بھی جمہوری اصولوں کی پاسداری میں غیر مستقل مزاج رہی ہیں۔ اس حقیقت کا تازہ ترین مظہر مسلم لیگ (ن) کے 2021 اور 2025 کے سیاسی بیانیوں کا تضاد ہے، جس نے ایک مرتبہ پھر پاکستانی سیاست میں نظریاتی پختگی کے فقدان کو بے نقاب کیا ہے۔

2021 میں مسلم لیگ (ن) کی سوشل میڈیا ٹیم، میڈیا سیل اور رہنماؤں نے جس شدت سے “ووٹ کو عزت دو” اور “عوامی حق حکمرانی” جیسے بیانیوں کو فروغ دیا، وہ جماعت کو ایک اصولی، نظریاتی اور آئینی جدوجہد کی علامت کے طور پر پیش کرتا تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ ریاست کے غیر منتخب اداروں کو سیاسی عمل سے دور رہنا چاہیے اور عوام کو اپنی قیادت منتخب کرنے کا حق مکمل طور پر حاصل ہونا چاہیے۔ اس بیانیے نے بہت سے نوجوانوں اور جمہوریت پسندوں کو متحرک کیا، جنہوں نے سمجھا کہ شاید اب پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل اور آئین کی بالا دستی کی نئی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔

تاہم 2025 میں سیاسی منظرنامہ بدلا۔ مسلم لیگ (ن) کو دوبارہ اقتدار کے قریب محسوس ہوا تو وہی ٹیمیں، وہی ترجمان، وہی سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور وہی بیانیہ ساز عناصر، جو کل تک ریاستی مداخلت کے خلاف تھے، آج انہی اقدامات کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں جنہیں وہ ماضی میں غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دے چکے تھے۔ یہ تبدیلی صرف بیانیے میں نہیں، بلکہ اس پوری سیاسی روش میں ہے جو اقتدار کے حصول کو اصولوں پر فوقیت دیتی ہے۔

یہ تضاد یا یوٹرن، محض ایک جماعت کی حکمت عملی کا مسئلہ نہیں، بلکہ پاکستان کی مجموعی سیاسی ثقافت کا عکاس ہے۔ یہاں اصول، نظریات، آئین، اور جمہوری روایت محض اس وقت تک اہم ہوتے ہیں جب تک وہ اقتدار سے محرومی کا سبب نہ بنیں۔ جیسے ہی اقتدار قریب آتا ہے، یہ سب الفاظ غیر متعلقہ ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ عملی مفاد، وقتی حکمت عملی اور مصلحت پسندی لے لیتی ہے۔

یہی طرزِ عمل سیاسی کارکنوں کی تربیت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ کارکنوں کو مستقل نظریاتی تربیت دینے کے بجائے وقتی بیانیے کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ وہ ایک دن آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں، تو اگلے دن اس کے برعکس موقف اپنانے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اس سے نظریاتی سیاسی کارکن نہیں بنتے بلکہ بیانیہ پرست مہم کار پیدا ہوتے ہیں، جو اپنے مؤقف کو اقتدار کے رخ کے مطابق ڈھالنے کو سیاسی حکمت عملی سمجھتے ہیں۔

جمہوری روایت کی تشکیل میں تسلسل، استقامت، اصول پسندی اور آئینی سوچ بنیادی عناصر ہوتے ہیں۔ لیکن اگر جماعتیں خود اصولی موقف پر قائم نہ رہیں، تو نہ صرف جمہوریت کمزور ہوتی ہے بلکہ عوام کا اعتماد بھی سیاست سے اٹھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں جمہوریت کے باوجود جمہوری طرزِ حکومت قائم نہیں ہو سکا، کیونکہ جمہوری ادارے اور جماعتیں خود ہی غیرجمہوری طریقوں کو اپنانے لگتی ہیں جب وہ ان کے مفاد میں ہوں۔

مسلم لیگ (ن) کے بیانیے کی یہ تبدیلی صرف سیاسی تنقید کا موضوع نہیں، بلکہ اس پر گہری فکری اور سیاسی بحث ہونی چاہیے۔ ایک جماعت جو اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار سمجھتی ہے، اس کا یہ فکری انحراف نہ صرف اس کی اپنی سیاسی اخلاقیات کو کمزور کرتا ہے بلکہ ملک میں جمہوری کلچر کے پنپنے کی راہ میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔

2021 میں جس طرح مسلم لیگ (ن) نے سول بالادستی، عدالتی اصلاحات، میڈیا آزادی اور شفاف انتخابات کے بیانیے کو زور دیا، اس سے امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید ملک میں ایک نظریاتی سیاست کی بنیاد پڑے گی۔ لیکن 2025 میں جب اقتدار کا دروازہ کھٹکھٹانے لگا، تو وہ تمام مطالبات ثانوی ہو گئے اور طاقت کی سیاست دوبارہ مرکزی حیثیت اختیار کر گئی۔ اس رویے سے ثابت ہوتا ہے کہ جماعتیں نہ تو جمہوریت کے بارے میں سنجیدہ ہیں، نہ ہی آئینی بالادستی کے بارے میں۔

مزید افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس تضاد پر کوئی اندرونی یا عوامی احتساب بھی نہیں ہوتا۔ نہ جماعت کے اندر کوئی سوال اٹھاتا ہے، نہ ہی عوامی سطح پر اسے سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ اس سے سیاست میں اصول پسندی کا کلچر مزید کمزور ہوتا ہے اور مفاد پرستی کو مزید تقویت ملتی ہے۔

لہٰذا، ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکن اپنے موقف اور بیانیے کا تنقیدی جائزہ لیں۔ اگر جمہوریت کو واقعی ایک اصولی طرزِ حکومت کے طور پر فروغ دینا ہے، تو بیانیوں کو مفاد سے نہیں، اصول سے جوڑنا ہو گا۔ آئینی بالادستی کا مطالبہ صرف اپوزیشن کے دنوں میں نہیں، بلکہ اقتدار میں رہتے ہوئے بھی برقرار رہنا چاہیے۔ اسی طرح عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے اور ایک مضبوط، پائیدار جمہوری کلچر کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کا 2021 اور 2025 کا فرق ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم واقعی جمہوریت کو اصولی طور پر اپنانا چاہتے ہیں یا اسے صرف اقتدار کی سیڑھی سمجھتے ہیں؟ جب تک اس سوال کا ایماندارانہ جواب نہیں دیا جائے گا، پاکستانی سیاست اسی طرح مفاد پرستی کے گرد گھومتی رہے گی اور جمہوریت ایک نعرہ ہی بنی رہے گی، حقیقت نہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos