Premium Content

دودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی

Print Friendly, PDF & Email

اکبر کی شاعری اور ان کی شعری زبان آج بھی سیاسی ڈسکورس کا حصہ بنتی نظر آتی ہے ،تو ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ان کی شاعری میں طلوع ہونے والی آنکھ کتنی دور دیکھ رہی تھی ۔

لسان العصر اکبرالہ آبادی سیداکبرحسین رضوی(1921-1846)الہ آباد کے قصبے بارہ میں پیدا ہوئے۔ طنزیہ اورمزاحیہ شاعری کےلیےمشہوراکبرکی ملازمت عرضی نویسی سےشروع ہوکروکالت،پھرسیشن جج کےعہدےپرختم ہوتی ہے ۔

ان کادورنوآبادیاتی دورہے،اورشاید یہ اس دور کا ہی اثر تھا، جس نےداغ اور امیر مینائی کے رنگ میں روایتی غزل کہنے والے اکبر کی شاعری کا اندازہی بدل دیا۔ ان کی شاعری اسی بدلے ہوئے رنگ کی شاعری ہے جس میں اکبر کا عہد سانس لیتا ہے

طفل میں بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
دودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی

کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا
جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا

شاعری سے قطع نظر اگر اکبر کی زندگی یا شخصیت کی بات کریں تو ایسے کئی سوال اٹھائے جا سکتے ہیں،جن پر مکالمہ قائم کیا جا سکتا ہے ۔ مثلاًاکبر نے دو شادیاں کیں، اپنی پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ ان کا رویہ اچھا نہیں تھا۔ دوسرے 1898میں برطانیہ حکومت سے ’خان بہادر‘کا خطاب لیا،پھر 1903میں اپنی دوسری بیوی کے بیٹے سید عشرت حسین رضوی کو اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان بھیجا، جہاں ان کے بیٹے نے 3 سال کی پڑھائی کوختم کرنے میں 7سال لگا دیے اور واپس اس وقت آئے جب اکبر نے انھیں خرچ دینےسے منع کر دیا، خود اکبر نے اپنے ایک شعر میں اس کی طرف اشارہ کیاہے

عشرتی گھر کی محبت کا مزا بھول گئے

کھا کے لندن کی ہوا عہد وفا بھول گئے

ریپبلک پالیسی اردو انگریزی میگزین خریدنے کیلئے لنک پر کلک کریں۔

https://www.daraz.pk/shop/3lyw0kmd

ان سوالات کی اہمیت اپنی جگہ،لیکن یہ بات شاید اس سے زیادہ اہم ہے کہ ان کی شاعری ہندوستان میں بہہ رہی لندنی ہوا سے پھیلنے والے امراض کی صرف نشاندہی نہیں کرتی بلکہ اس کے دیر پا اثرات سے بھی خبردار کرتی ہے

افسوس ہے گلشن کو خزاں لوٹ رہی ہے

شاخ گل تر سوکھ کے اب ٹوٹ رہی ہے

ہند سے آپ کو ہجرت ہو مبارک اکبر

ہم تو گنگا ہی پہ مار کے آسن بیٹھے

میں کہتا ہوں ہندو مسلمان سے کہ بھائی

موجوں کی طرح لڑومگر ایک رہو

اکبر کی شاعری اس انسان کے احساسات و جذبات کی ترجمانی ہےجو غیرمعمولی ذہن رکھتا ہے۔وہ پرانی قدروں سے محبت بھی کرتا ہے اور زمانے کے مزاج کو بھی دیکھ رہا ہے،لوگوں کے متغیر کردارکودیکھ رہا ہےاوروہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس میں اتنی قوت نہیں کہ وہ حکومت کا تختہ پلٹ دے ،لیکن وہ اس کو چپ چاپ قبول کر لینے کو تیار نہیں ہے۔ لہذا وہ انگریزی تہذیب پر ہنستا ہے ،طنز کرتا ہے ،اس کامذاق اڑاتا ہے ۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ قدیم وجدید کی اس لڑائی میں نقصان صرف ہندوستانیوں کا ہی ہے

قدیم و ضع پہ قائم ہوں میں اگر اکبر

تو صاف کہتے ہیں سید یہ رنگ ہے میلا

جدید طرز اگر اختیار کرتا ہوں

تو اپنی قوم مچاتی ہے شور واویلا

غرض دو گونہ عذاب است جان مجنوں را

بلائے صحبت ِ لیلیٰ وفرقت لیلیٰ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos