Premium Content

دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے

Print Friendly, PDF & Email

 امجد اسلام امجد سوچ میں ڈوب کر مایوس نہیں ہوتا بلکہ مایوس ماحول میں امید کی شمع جلا کر پریشان حال لوگوں کو ان کی منزل کا راستہ دکھاتا ہے اور پھر ان کی ڈھارس بندھاتا ہوا اور اپنے پراثر شعر سناتا ہوا ان کوان کی منزل پر لے کر پہنچ جاتا ہے۔ نشان منزل کوئی ان سے سیکھے۔ عصر حاضر کا منفرد اور یکتا شاعر۔ امید کا شاعر۔ جستجو کا شاعر۔ عشق و محبت کا شاعر۔ زندگی و بندگی کا شاعر۔ بے نیازی و خود داری کا شاعر۔ گل و گلزار و ریگزار کا شاعر۔نئی امنگوں کا شاعر۔ من میں ڈوب جانے والاشاعر۔ فطرت کے اندر جھانکنے والا شاعر۔ ہر کسی کی سوچ کو جھنجھوڑنے والا شاعر۔ ہر کسی کی بات کرنے والا شاعر۔ بلکہ پوری زمین اور پورے آسمان کا شاعر۔ پاکستان کا بہت بڑا شاعر

دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے

اس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے اصل میں مر جانا ہے

بول اے شام سفر رنگ رہائی کیا ہے
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے

کون ابھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشت سحر جانا ہے

میں کھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
وہ تو خوشبو ہے اسے اگلے نگر جانا ہے

وہ ترے حسن کا جادو ہو کہ میرا غم دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اتر جانا ہے

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos