صدر ڈونلڈ ٹرمپ بدھ کے روز وائٹ ہاؤس میں پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے اعزاز میں ظہرانہ دیں گے۔ یہ ملاقات صدر کے شیڈول میں درج ہے اور کابینہ روم میں بند کمرے میں ہوگی۔ اسلام آباد میں اسے ایک اہم سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
چند ہفتے قبل بھارتی وفد نے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سے ملاقات کی تھی، جسے بھارتی میڈیا نے سفارتی جیت کے طور پر پیش کیا۔ اب پاکستانی حکام منیر کی وائٹ ہاؤس آمد کو اُس بیانیے کا مؤثر جواب قرار دے رہے ہیں۔
یہ پیش رفت اس وقت ہوئی ہے جب حالیہ پاک-بھارت فضائی جھڑپ کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہو چکے تھے۔ فیلڈ مارشل منیر، جنہیں حال ہی میں پاکستان کی تاریخ میں ایوب خان کے بعد پہلی بار فائیو اسٹار رینک دیا گیا، پانچ روزہ سرکاری دورے پر امریکہ میں موجود ہیں۔
واشنگٹن میں پاکستانی نژاد امریکیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پاہلگام حملے کا الزام مسترد کیا اور کہا کہ بھارت بین الاقوامی سرحدی خلاف ورزیوں کو معمول بنانے کی کوشش کر رہا ہے، جسے پاکستان نے مکمل طور پر رد کر دیا ہے۔
منیر کے دورے کا سب سے اہم پہلو پاکستان اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی تعاون کا مضبوط ہونا ہے۔ امریکی سینٹکام کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا نے پاکستان کو “شاندار شراکت دار” قرار دیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستانی کارروائیوں میں داعش خراسان کے اہم رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا، جن میں کابل ایئرپورٹ بم دھماکے کا ماسٹر مائنڈ محمد شریفللہ بھی شامل ہے، جسے امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔
منیر نے اسرائیل-ایران تنازع پر بات کرتے ہوئے ایران کی حمایت اور فوری جنگ بندی کی خواہش کا اظہار کیا، ساتھ ہی امریکی ثالثی کوششوں کی بھی تائید کی۔
انہوں نے سمندر پار پاکستانیوں کے کردار کو سراہتے ہوئے اسے “برین گین” قرار دیا اور جمہوری معاشروں میں اختلاف رائے کے حق کو اہم قرار دیا۔ ان کی گفتگو اتحاد، مزاحمت اور مضبوط پاکستان کے عزم پر اختتام پذیر ہوئی۔