ادارتی تجزیہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ جو بیس نکاتی غزہ منصوبہ پیش کیا ہے، اس پر عالمی ماہرین تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین نے گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ یہ منصوبہ امن کے بجائے ایک نوآبادیاتی خاکہ دکھائی دیتا ہے جس میں فلسطینیوں کو مکمل طور پر اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ فلسطینیوں کی سیاسی بے دخلی ہے۔ منصوبے میں حماس کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا اور فلسطین کو اپنی فوج یا دفاعی صلاحیت رکھنے سے روک دینا دراصل ان کی خودمختاری چھیننے کے مترادف ہے۔ اگر دو ریاستی حل میں فلسطین کو اپنی فوج بنانے یا طاقت قائم رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی تو یہ حقیقت میں کوئی حل نہیں بلکہ یکطرفہ منصوبہ ہے جو اسرائیل کی برتری کو ہمیشہ کے لیے قائم کرے گا۔
ریپبلک پالیسی کو یوٹیوب پر فالو کریں
بین الاقوامی قانون واضح ہے کہ ہر خودمختار ریاست کو دفاع کا حق حاصل ہے۔ فلسطینیوں سے یہ حق چھین لینا عدم مساوات کو ادارہ جاتی شکل دینا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل یا کوئی غیرجانبدار عالمی فورس اسرائیل کو محدود کرنے اور فلسطینی تحفظ کی ضمانت نہ دے تو یہ منصوبہ محض ایک فریب ہوگا۔
ریپبلک پالیسی کو ٹوئٹر پر فالو کریں
مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ منصوبہ فلسطینیوں کی سیاسی جدوجہد کو بھی مٹا دیتا ہے۔ مزاحمت چاہے سفارتی ہو یا علامتی، ان کے نصب العین کا حصہ رہی ہے۔ اس مزاحمت کو ختم کرکے فلسطینیوں کو اپنی ہی سرزمین پر محکوم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ امن نہیں بلکہ محکومی ہے۔
ریپبلک پالیسی کو فیس بک پر فالو کریں
پاکستان کے لیے یہ صورتحال نہایت اہم ہے۔ فلسطین کے دیرینہ حامی ہونے کے ناطے پاکستان کو انتہائی احتیاط سے قدم اٹھانا ہوگا۔ اندھی حمایت فلسطینی خودمختاری اور وقار کی نفی ہوگی۔ پاکستان کو اس بات پر زور دینا چاہیے کہ بین الاقوامی قانون نافذ ہو، اور کوئی قابض طاقت زمین پر مستقل قبضہ نہ رکھ سکے۔
ریپبلک پالیسی کو ٹک ٹاک پر فالو کریں
یہ جنگ غیرقانونی قبضے کے پس منظر میں شروع ہوئی تھی۔ کسی بھی امن منصوبے کی بنیاد اسی قانونی حقیقت پر ہونی چاہیے۔ پاکستان کا کردار محض بیانات تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے فعال سفارتی کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ فلسطین کی ریاست، خودمختاری اور سلامتی قربان نہ ہو۔