نظیر اکبر آبادی کا نام ولی محمد تھا اور نظیر اُن کا تخلص تھا۔ وہ 1735میں دہلی ، ہندوستان میں پیدا ہوئے اور 1830 میں اس دنیا فانی سے رخصت فرما گئے۔ نظیر اکبر آبادی 18ویں صدی کے ہندوستان کےمشہور شاعر تھے۔ اُنہیں فادر آف نظم کہا جاتا ہے۔
نظیر ؔ کا اندازِ شاعری سراسر تجربہ اور مشاہدہ تھا۔ اپنے زمانے پر اور اپنے زمانے کے رسوم و رواج پر بھر پور نظر رکھی۔ امیروں کی بجائے غریبوں کے محلوں کو موضوعِ گفتگو بناتے رہے ۔انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے عام آدمی کے شوق کو قلم بندکیا۔
دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم
بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم
مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں
دل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم
کیوں نہیں لیتا ہماری تو خبر اے بے خبر
کیا ترے عاشق ہوئے تھے درد و غم کھانے کو ہم
ہم کو پھنس نا تھا قفس میں کیا گلہ صیاد کا
بس ترستے ہی رہے ہیں آب اور دانے کو ہم
طاق ابرو میں صنم کے کیا خدائی رہ گئی
اب تو پوجیں گے اسی کافر کے بت خانے کو ہم
باغ میں لگتا نہیں صحرا سے گھبراتا ہے دل
اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم
کیا ہوئی تقصیر ہم سے تو بتا دے اے نظیرؔ
تاکہ شادی مرگ سمجھیں ایسے مر جانے کو ہم