طارق محمود اعوان
کرسٹوفر مارلو کا مشہور المیہ “ڈاکٹر فاسٹس” ایک ایسے ذہین اور باصلاحیت شخص کی کہانی ہے جو اقتدار، اختیار اور ذاتی تسکین کے لیے اپنی روح شیطان کے ہاتھ بیچ دیتا ہے۔ یہ کہانی نہ صرف اخلاقی زوال کی عکاسی کرتی ہے بلکہ طاقت کی ہوس سے تباہی کے راستے پر چلنے والے انسان کی علامت بھی ہے۔ یہی تمثیل پاکستان کی سول بیوروکریسی پر بھی مکمل طور پر صادق آتی ہے۔ ڈاکٹر فاسٹس کی طرح، پاکستان کے بیشتر بیوروکریٹس بھی طاقت، مراعات، اور ذاتی مفاد کی کشش میں اپنے پیشہ ورانہ اصولوں، قانونی فرائض اور عوامی خدمت کے جذبے کا سودا کرتے ہیں۔
پاکستان میں سول سروسز، جیسے کہ سی ایس ایس اور پی ایم ایس، میں شمولیت کے خواہش مند نوجوان اکثر مثالی جذبے کے تحت امتحانات میں شرکت کرتے ہیں۔ وہ ملک کی خدمت، نظام کی اصلاح اور عوامی فلاح کے لیے پرعزم ہوتے ہیں، جیسے فاسٹس علم کے ذریعے دنیا کو تسخیر کرنے کا خواب دیکھتا ہے۔ مگر عملی دنیا میں، سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کے باوجود جس میں سول سرونٹس کو آئین کے محافظ اور قانون کے نفاذ کنندہ قرار دیا گیا، بیوروکریٹس اکثر سیاسی دباؤ، ذاتی مفاد، اور طاقت کے حصول کی خاطر قانون کی صریح خلاف ورزی کرتے ہیں۔
یہ اخلاقی انحطاط محض انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ ایک منظم اور ساختی خرابی ہے۔ فاسٹس نے اپنی روح خون سے لکھ کر شیطان کے سپرد کی، جبکہ پاکستان کے بیوروکریٹس ہر بار جب وہ قانون کو نظر انداز کرتے ہیں، سیاسی احکامات کی پیروی کرتے ہیں، یا بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں، وہ اپنی پیشہ ورانہ روح کو قربان کرتے ہیں۔ ٹرانسفرز، پوسٹنگ، زمینوں کے معاملات، ٹھیکوں کی بندر بانٹ — سب کچھ ایک غیر تحریری سودا بن چکا ہے جس کا مرکز مفاد، اور انجام تباہی ہے۔
فاسٹس کی طرح، پاکستانی بیوروکریٹس کو بھی ان سودوں کے بدلے عارضی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ فاسٹس کو 24 سال کا اختیار ملا، بیوروکریٹس کو اچھی پوسٹنگ، غیر قانونی فوائد اور اثرورسوخ۔ مگر وقت گزرنے پر انجام یکساں ہوتا ہے — بدنامی، تنہائی، اور پیشہ ورانہ زوال۔ کئی افسران ریٹائرمنٹ کے بعد پچھتاوے کا شکار ہوتے ہیں، کچھ کرپشن کے الزامات میں گرفتار ہوتے ہیں، اور اکثر نظام کی دیواروں میں گم ہو جاتے ہیں۔ وہ میراث جو وہ چھوڑتے ہیں وہ اصلاح یا دیانت کی نہیں بلکہ عوامی اعتماد کی پامالی کی ہوتی ہے۔
اس عمل کا سب سے بڑا نقصان ریاستی اداروں، قانونی نظام، اور عوامی خدمت پر ہوتا ہے۔ جب قوانین کو سیاسی مفاد کے لیے توڑا جائے، تو ریاست کا آئینی ڈھانچہ کمزور ہو جاتا ہے۔ جب قابلیت کے بجائے چاپلوسی کو ترجیح دی جائے، تو انتظامی نظام ناکارہ ہو جاتا ہے۔ اور جب عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ قانون سب کے لیے نہیں بلکہ مخصوص لوگوں کے لیے ہے، تو ریاست پر سے اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ یہ بے اعتمادی شہری بیزاری، احتجاج، اور سماجی بدامنی کو جنم دیتی ہے۔
موجودہ سول سروس کلچر میں اصلاح اور جدت کے لیے کوئی گنجائش نہیں بچی۔ جو افسر اصلاحات کی کوشش کرتے ہیں، انہیں دیوار سے لگا دیا جاتا ہے۔ اور جو نظام کے ساتھ چلتے ہیں، وہ انعام پاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جہاں بقا کا دارومدار اصولوں پر نہیں بلکہ اطاعت پر ہے۔ اس ماحول میں بیوروکریسی کی روح صرف بیچی نہیں جاتی، بلکہ مار دی جاتی ہے۔
یہ کہنا غلط ہوگا کہ تمام بیوروکریٹس ایک جیسے ہوتے ہیں۔ کئی ایسے بھی ہیں جو دیانت سے کام کرتے ہیں، قانون پر عمل کرتے ہیں، اور عوام کی خدمت کو اپنا مشن بناتے ہیں۔ مگر وہ اقلیت میں ہوتے ہیں اور اکثر نظام سے کٹے رہتے ہیں۔ جب تک ادارہ جاتی اصلاحات نہ ہوں، ان افراد کی محنت ضائع ہی جاتی ہے۔
پاکستان میں گورننس کا بحران محض سیاسی یا معاشی مسئلہ نہیں، بلکہ سول سروس کی اخلاقی تباہی سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔ جب بیوروکریسی عوام کی خادم کے بجائے طاقت کی تابع ہو جائے، تو ریاستی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ غربت، ناانصافی، اور عوامی بے دخلی کی صورت میں نکلتا ہے۔ بیوروکریسی کی اخلاقی گراوٹ ایک قومی بحران بن چکی ہے۔
اس بحران سے نکلنے کے لیے فوری اصلاحات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے سیاسی اثر و رسوخ سے بیوروکریسی کو آزاد کرنا ہوگا۔ تقرریوں، تبادلوں، اور ترقیوں میں شفافیت اور اصولوں کو بنیاد بنانا ہوگا۔ تربیتی پروگرامز میں آئینی شعور، اخلاقیات، اور عوامی خدمت کا تصور شامل کرنا ہوگا۔ اور سب سے اہم، سول سروس کو (قانون کے مطابق) بااختیار بنانا ہوگا، نہ کہ سیاسی غلام۔
ڈاکٹر فاسٹس کی کہانی محض ادبی داستان نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے آئینے کی حیثیت رکھتی ہے۔ فاسٹس نے جو غلطی کی، وہ ہمارے بیوروکریٹس روز کرتے ہیں — عارضی اقتدار کے لیے مستقل زوال کا سودا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک بہتر ریاست بنے، تو ہمیں یہ فاسٹین سودا ختم کرنا ہوگا اور بیوروکریسی کو دوبارہ قانون، اخلاق، اور عوامی خدمت کے اصولوں پر استوار کرنا ہوگا۔
آخر میں، میری تجویز ہے کہ ہر پاکستانی سول سرونٹ کو “ڈاکٹر فاسٹس” ضرور پڑھنی چاہیے — تاکہ وہ جان سکے کہ طاقت کی ہوس انسان کو کیسے برباد کرتی ہے۔