دم تو کریں مگر

[post-views]
[post-views]


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کہیں ایک صاحب رہتے تھے جو بہت ہی بُردبار اور تحمل مزاج تھے۔ انتہا ئی ٹھنڈے مزاج کے مالک تھے۔ نرم خو تھے۔ زندگی میں بھی انہوں نے بیگم کے سامنے آواز بلند کرنے کی جسارت نہیں کی تھی۔ بیگم ایک دفعہ بیمار ہو گئیں۔ ان کو شہر کے بہترین ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ساتھ والے کمرے کی مریضہ کو انگریزی علاج کے ساتھ ساتھ روحانی علاج کی سہولت بھی میسر تھی ۔ایک بزرگ ان کو ہر شام دم کرتے تھے۔ بیگم نے گلہ کیا کہ آپ مجھے دم نہیں کروار ہے، جس وجہ سے میری بیماری نہیں جارہی۔ رابطہ کرنے پر ساتھ والی مریضہ کے اہل خانہ نے کہا کہ ہمارے بزرگ آپ کی مریضہ کو بھی دم کر جائیں گے۔ ایک شام بزرگ اس مقصد سے آئے۔ انہوں نے کچھ پڑھا۔ جب خاتون کے کان میں دم کرنے لگے تو تاریخ عالم کا سب سے عجب واقعہ ہوا۔

صاحب کی شخصیت یک دم بدل گئی۔ گرجدار آواز میں کہنے لگے، کان میں نہیں ناک میں دم کرو۔ اس نے ساری زندگی میری ناک میں دم کیے رکھا ہے۔ تم بھی اس کی ناک میں دم کرو۔ کوئی تو اس کی ناک میں دم کرے۔ سننے میں آیا ہے کہ یہ سنتے ہی بیگم کو اپنی بیماری بھول گئی اور انہوں نے ایک جلالی نظر اس گستاخ پر ڈالی۔ نظر ملتے ہی صاحب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔ زمین پر گر گئے اور بے ہوش ہو گئے۔

اس کے فوری بعد کے واقعات صحیح طور پر معلوم نہیں ہو سکے۔ آج کل وہ صاحب ایک پاگل خانے میں داخل ہیں۔ بظاہر ان کو کوئی بیماری نہیں، بس کسی وقت بیٹھے بیٹھے اپنے گالوں پر چانٹے مارنے لگتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں تم تو اس کی ناک میں دم کرو، کوئی تو اس کی ناک میں دم کرے۔ ان کے معالج ان کو گلے لگاتے ہیں۔ دو چار آنسو ٹپکاتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر تو ایک دن یہاں تک کہنے لگا کہ یہ حضرت مریض نہیں ہیں۔ ہمارے ہیرو ہیں۔ اجتماعی ضمیر کی آواز ہیں۔ انہوں نے مردانہ اُمت کی طرف سے ایک فریضہ ادا کیا ہے اور ادا کرنے کا حق ادا کر دیا ہے۔

ان کے الفاظ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں اور یہ تمام مرد حضرات کیلئے لائق ابتاع ہیں۔ بیگمات ہماری ناک میں دم کرتی ہیں یا حضرات خود ہی اتنے بڑے حضرت ہوتے ہیں کہ وہ بیگم کی ناک میں دم کیسے رکھتے ہیں اور پتہ بھی نہیں لگنے دیتے ، اس کا فیصلہ کرنا کافی مشکل ہے۔ ہمارے ایک دوست بڑے قابل ڈاکٹر تھے۔ پریکٹس بھی بہت اچھی چلتی تھی۔ انہوں نے کئی سال اپنی بیگم کو بالکل وقت نہ دیا۔ نوکری اور پریکٹس کے علاوہ کسی طرف قطعاََ کوئی توجہ نہ دی۔ کافی سال گزرنے کے بعد ایک دن انہیں پتہ نہیں کیا خیال آیا۔ بیگم پر بہت پیار آیا اور وہ اس کو ڈنر پر لے گئے۔ جذباتی ہو کر کہنے لگے کہ تمہاری وجہ سے میری زندگی بہت اچھی گزری۔ بیگم نے جل کر کہا کبھی میرے بارے میں بھی سوچنا کہ میرا یہ عرصہ کیسے گزرا؟ تمہیں میری زندگی تباہ کرنے کی پر یکٹس ہو گئی ہے۔

تم بہت حضرت ہو۔ اپنے رویہ سے دوسرے کی ناک میں دم کر دیتے ہو اور دم مارنے بھی نہیں دیتے ہو۔ اُردو لغت میں بیگم کو نصف بہتر کہا جاتا ہے اور یہ ان الفاظ میں سے ہے جن کی واحد جمع ایک ہی ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا رواج رہا ہے۔ ہمارے بزرگ لغت سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے۔ یہ سمجھتے تھے کہ دو نصف بہتر مل کر جمع کے کلیہ کے تحت ایک بہتر کے برابر ہو جائے گی مگر تاریخ گواہ ہے کہ بیگمات اس طرح کے مردانہ ہتھکنڈوں کو بھی خاطر میں نہیں لائیں انہوں نے ہمیشہ لغت کا مان رکھا۔

آج بھی کوئی بیگم لغت کی حرمت کے خلاف کسی زبان پر ایک حرف نہیں آنے دیتی ، چاہے اسے سب پر چار حرف بھیجنے پڑیں۔ بیگمات جتنی بھی ہوں وہ نصف بہتر ہی ہوتی ہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ” مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ایک صاحب ایک جگہ ڈی ایس پی ٹریفک تعینات ہوئے تو انہوں نے گاڑیوں میں اوور لوڈنگ کے خلاف آپریشن شروع کر دیا۔ اس علاقے میں پیری مریدی کا کافی رواج تھا۔ جس شخص کو اُتارا جاتا ، وہ کسی کی مریدی کا دعوی کر دیتا۔ ڈی ایس پی صاحب ٹس سے مس نہ ہوتے۔ آخر کا را یک عظیم انسان نیچے اترا اور اس نے ڈی ایس پی صاحب کو بتایا کہ وہ رن مرید ہے۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ یہ سنتے ہی پتھر دل ڈی ایس پی صاحب فوری پگھل گئے اور ان کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہنے لگے۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com

انہوں نے اپنے پیر بھائی کو گلے لگایا اور احترام کا حق ادا کر دیا۔ بیگمات بڑے بڑے پر جوش حضرات کا جوش ایک دم ٹھیک کر دیتی ہیں اور اُن کو ان کی اوقات پر لے آتی ہیں۔ حضرت جوش ایک دن بیٹھے اپنی کسی محبوبہ کی یاد میں آنسو بہا رہے تھے کہ ان کی بیگم تشریف لے آئیں اور غصے سے پوچھنے لگیں کیوں رو ر ہے ہو کیا بات ہے ؟ جوش صاحب کا جوش مدہم پڑ گیا اور وہ فرمانے لگے کچھ نہیں، ایسے ہی اماں بی یاد آگئی تھیں۔ بیگم چاہے منی بھی ہوں تب بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔

پوری دنیا میں چرچے ہوتے ہیں۔ ہماری منی بیگم اس بات کا زندہ ثبوت ہیں۔ کافی عرصہ پہلے چند صاحب رائے افراد میں یہ بحث زوروشور سے جاری تھی کہ کون سی بیگم سب سے بہتر ہوتی ہے؟ فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔ کافی عرصہ گزر گیا مگر بات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہی تھی آخر کار ایک دانشمند کو الہام ہوا کہ اچھی بیگم تو صرف تاش کی بیگم ہوتی ہے آج تک تمام دنیا کے مرد حضرات کا اس الہام پر اجماع ہے۔

میرے ایک دوست کافی دیرینہ شادی شدہ تھے مگر پھر بھی ہر وقت خوش رہتے تھے۔ میں نے بارہا ان سے ان کی خوشی کا راز پو چھا اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ان کی بیگم ناک میں دم نہیں کرتی ؟ وہ ہر دفعہ مسکرا کے ٹال دیتے۔ آخر ایک دن انہوں نے یہ عقدہ وا کیا اور کہنے لگے کہ اگر میاں بیوی کے رشتے میں ناک مرد کے پاس رہے تو صورتحال ہمیشہ خطر ناک رہ جاتی ہے اس لیئے انہوں نے اپنی ناک کے جملہ حقوق شادی کے پہلے دن ہی بیگم کے حوالے کر دیئے تھے اور خود خاک ہو کر آج تک گل و گلزار ہیں۔ دم تو اس چیز میں ہوتا ہے ، جو ہو ۔ جب انہوں نے اس رشتے میں بھی اپنی ناک ہی نہیں رکھی تو ناک میں دم ہونے کا کیا سوال؟ انہوں نے تمام مرد حضرات کو نصیحت کی کہ اگر کوئی چاہتا ہے بیگم اس کی ناک میں دم نہ کر ے تو اس کو ناک بیگم کے حوالے کر دینی چاہیے۔ بیگم کے سامنے ناک اونچی کرنے کے شوقین حضرات کی گردن پوری دنیا کے سامنے جھکی رہتی ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ بے غم وہی ہو سکتا ہے جس کے پاس بیگم نہ ہو اور بیگم والا آدمی کبھی بے غم نہیں ہو سکتا، جدید سائنس نے یہ بات غلط ثابت کر دی ہے۔ سماجیات کے ماہرین اب یہ کہتے ہیں کہ بے غم صرف وہی ہو سکتا ہے جس کو اس کی بیگم کوئی غم نہ دے۔ جس کو بیگم غم دے اس کا دنیا میں کوئی علاج نہیں۔ ایک سمجھدار شاعر نے تو صدیوں پہلے کہہ دیا تھا۔
؎بیگم سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ رشتہ اپنی فطرت میں نوری ہے نہ تاری ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos