اسرائیل کے سابق وزیرِاعظم ایہود اولمرٹ نے کہا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کا قتل اور انہیں زبردستی دوسری جگہ منتقل کرنا ایک بڑا ظلم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
برطانوی اخبار دی گارڈین کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اگر فلسطینیوں کو جنوبی غزہ میں ایک نئی بستی میں زبردستی بھیجا جاتا ہے تو یہ ایسا عمل ہوگا جس میں ایک پوری قوم کو ان کے گھروں سے نکالا جا رہا ہے۔
اولمرٹ، جو 2006 سے 2009 تک اسرائیل کے وزیرِاعظم رہ چکے ہیں، نے خبردار کیا کہ اس نئی مجوزہ بستی کا منصوبہ درحقیقت ایک قید خانہ بن جائے گا جہاں لاکھوں فلسطینیوں کو محدود کر دیا جائے گا۔
اسرائیلی وزیرِدفاع اسرائیل کاٹز پہلے ہی فوج کو ہدایت دے چکے ہیں کہ اس بستی کے منصوبے پر تیزی سے کام کیا جائے، جس میں غزہ کی پوری آبادی کو رکھا جائے گا۔ یہ بستی جنوبی غزہ کے شہر رفح کے تباہ شدہ علاقے میں بنائی جائے گی، اور ایک بار فلسطینی اس میں داخل ہو جائیں گے تو وہ باہر نہیں جا سکیں گے۔
وزیرِدفاع نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے کا منصوبہ جلد نافذ کیا جائے گا۔
اولمرٹ نے کہا
“اگر انہیں زبردستی ایک جگہ قید کیا جاتا ہے، تو یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کو جلا وطن کر کے قید کر دیا جائے۔”
انہوں نے کہا کہ وہ اب اسرائیل کے ان اقدامات کا دفاع نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ عمل جنگ کے دوران کیے جانے والے سنگین جرائم جیسے ہیں۔
انہوں نے موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے فیصلوں کو کسی اور انداز میں دیکھنا ممکن نہیں۔
اولمرٹ نے مزید کہا
“جب آپ ایک ایسی جگہ بناتے ہیں جہاں آدھے سے زیادہ غزہ کے لوگوں کو منتقل کر کے قید کیا جائے، تو اس کا مقصد انہیں بچانا نہیں بلکہ انہیں زبردستی ہٹانا اور ختم کرنا ہوتا ہے۔”













