جانبدار الیکشن کمیشن جمہوری نظام پر سوالیہ نشان

[post-views]
[post-views]

مبشر ندیم

پاکستان میں جمہوریت کا استحکام ہمیشہ سے ادارہ جاتی شفافیت اور غیرجانبداری سے مشروط رہا ہے۔ ان اداروں میں سب سے اہم کردار الیکشن کمیشن کا ہے، جو نہ صرف انتخابات کے منصفانہ انعقاد کا ضامن ہے بلکہ جمہوری اقدار کا محافظ بھی سمجھا جاتا ہے۔ مگر حالیہ چند برسوں کے واقعات اور فیصلے ایک گہرے سوال کو جنم دیتے ہیں: کیا الیکشن کمیشن واقعی ایک غیرجانبدار ادارہ ہے؟

ایک ادارہ، دو رویے

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جب ایک واضح آئینی حکم جاری کیا — جیسا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا معاملہ — تو الیکشن کمیشن نے نہ صرف اس حکم پر عمل درآمد سے انکار کیا بلکہ اس کی روح کو مجروح کیا۔ یہ طرزِ عمل کسی بھی آئینی ادارے کے شایانِ شان نہیں تھا۔ عدالت عظمیٰ کی رائے کو یوں ردی کی ٹوکری میں ڈال دینا ریاستی توازنِ کار کے اصول کی کھلی خلاف ورزی تھی۔

تاہم، وہی الیکشن کمیشن چند ہفتے بعد اچانک “پھرتی” دکھاتے ہوئے مخصوص سیاستدانوں کو نااہل قرار دینے اور ڈی سیٹ کرنے کے نوٹیفکیشن جاری کر دیتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کارروائیوں میں نہ وہ قانونی سستی دیکھی گئی، نہ ہی عمل درآمد میں تاخیر۔

یہ تضاد خود اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن اب ایک فعال آئینی ادارہ کم، اور مخصوص سیاسی مفادات کا آلۂ کار زیادہ دکھائی دیتا ہے۔

قانونی اور آئینی تناظر

پاکستان کا آئین الیکشن کمیشن کو ایک آزاد، خودمختار اور غیرجانبدار ادارہ قرار دیتا ہے (آرٹیکل 218 اور 219)۔ اس کے بنیادی فرائض میں صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد شامل ہے۔ لیکن جب یہ ادارہ سپریم کورٹ کے احکامات کی حکم عدولی کرے، یا ایک فریق کے خلاف فوراً ایکشن لے کر دوسرے کے لیے آنکھیں بند کر لے، تو اس کی ساکھ پر سوال اٹھنا فطری ہے۔

جانبداری کے اثرات

الیکشن کمیشن کی جانبداری نہ صرف عوام کے اعتماد کو مجروح کرتی ہے، بلکہ پورے انتخابی عمل کو متنازع بنا دیتی ہے۔ جب ایک مخصوص سیاسی جماعت کے خلاف فوری فیصلے لیے جائیں، اور دوسری کے خلاف شکایات کو التوا میں رکھا جائے، تو یہ تاثر پختہ ہوتا ہے کہ فیصلے آئین کی روشنی میں نہیں، بلکہ سیاسی مصلحتوں کے تحت کیے جا رہے ہیں۔

اس کا نقصان صرف ایک جماعت کو نہیں ہوتا — بلکہ پوری جمہوری روایت، عوامی مینڈیٹ اور ریاستی اداروں کی ساکھ داؤ پر لگ جاتی ہے۔

آئینی اداروں کی غیرجانبداری: جمہوریت کی بنیاد

جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں؛ یہ اداروں کی خودمختاری، قانون کی حکمرانی اور شفاف عمل کا نام ہے۔ جب الیکشن کمیشن جیسے ادارے اپنی ساکھ کھو بیٹھیں، تو انتخابات کا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو، وہ عوامی تائید سے محروم ہو جاتا ہے۔

پاکستان کی جمہوریت پہلے ہی کئی دھچکے سہہ چکی ہے — کبھی عدلیہ کی مداخلت سے، کبھی مقتدرہ کی “پالیسی” سے، اور اب الیکشن کمیشن کی متنازعہ پالیسیوں سے۔

سوال یہ نہیں کہ الیکشن کمیشن جانبدار ہے یا نہیں، سوال یہ ہے:

اگر ادارے خود ہی آئینی دیوار کو گرا دیں، تو باقی دیواریں کیسے کھڑی رہیں گی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos