الیکشن کمیشن کی 31 دسمبر کو اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات سے معذرت، عدالت کا اظہار برہمی

اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے 31 دسمبر کو اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے سے معذرت کرلی جس پر عدالت نے الیکشن کمیشن سے انتخابات کی حتمی تاریخ مانگ لی۔

اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات 31 دسمبر کو ملتوی کرانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواستوں کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔ لاء افسران، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے کی۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن31 دسمبر کو انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے؟ جس پر الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ مشکل ہے۔

عدالت نے کہا کہ کیا آپ نے اس عدالت کو جو یقین دہانی کرائی تھی کہ الیکشن ملتوی کرنا اس کی خلاف ورزی نہیں؟ جس پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم نے اس عدالت کو مشروط یقین دہانی کرائی تھی۔ اشتراوصاف نے کہا کہ عدالت اس کیس میں عارضی ریلیف نہیں دے سکتی کیونکہ یہ تو پھر پٹیشن کا مکمل ریلیف ہوگا۔

عدالت نے اشتر اوصاف کو ہدایت دی کہ کیا آپ نے کل کا آرڈر دیکھا ہے؟ اس پر معاونت کریں۔ اشتر اوصاف نے کہا کہ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن موجود ہیں ان سے پوچھیں الیکشن ملتوی کیوں ہوئے۔

عدالت نے کہا کہ ڈی جی صاحب یہ تو آپ پر ڈال رہے ہیں اب آپ بتائیں، کیا الیکشن کمیشن 31 دسمبر کو الیکشن کرانے پر تیار ہے؟ اس پر ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کے سامان کی ترسیل میں وقت لگے گا۔

عدالت نے پوچھا کہ سامان کی ترسیل تو آپ کرچکے تھے کل آپ نے کہا تھا، اسلام آباد کے اندر ہی سامان کی ترسیل میں کتنا وقت لگے گا؟ یہ بتائیں، اس پر ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ نئی صورتحال میں 31 دسمبر کو الیکشن ممکن نہیں تھے۔

عدالت نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ عدالت میں کرائی گئی یقین دہانی کے منافی نہیں؟ آپ نے 101 یونین کونسلز کی حلقہ بندی کا پراسس مکمل کیا؟ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا کہ ساٹھ دن کے اندر 125 یونین کونسلز میں حلقہ بندیاں ہونی ہیں۔

عدالت نے کہا کہ حکومت کو یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں وجوہات کا ذکر ہم نے جواب میں کیا ہے، ڈی جی الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے بھی کہا اب بھی کہہ رہے ہیں الیکشن کے نزدیک حکومت کوئی ترمیم نہ کرے۔

عدالت نے پوچھا کہ بلدیاتی انتخابات میں کتنے فنڈز استعمال ہوئے اس سے متعلق بتائیں؟  اشتر صاحب قومی خزانے کا اتنا نقصان کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس موقع پر عدالت نے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات میں ہونے والے اخراجات کی تفصیل فراہم کرانے کا حکم دے دیا۔

جسٹس ارباب محمد طاہر نے ڈی جی لاء الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ جو فنڈز الیکشن کمیشن کو فراہم کیے گئے وہ کن چیزوں پر خرچ ہوئے؟کیا اب تک پچاس ساٹھ کروڑ کی رقم خرچ نہیں ہوچکی؟ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا کہ نہیں، ابھی اتنی رقم خرچ نہیں ہوئی، تحریری طور پر عدالت کو بتائیں گے۔

عدالت نے پوچھا کہ اب تک الیکشن کمیشن کتنے فنڈز خرچ کر چکا ہے؟ تحریری طور پر بتائیں، ذہن نشین کرلیں یہ عدالت کسی صورت قومی خزانے کو نقصان نہیں پہنچانے دے گی، جو صورتحال ہے آپ اس سے آگاہ ہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ جی بالکل معلوم ہے، میں اپنے دفتر میں بھی بجلی تک کی بچت کرتا ہوں۔

عدالت نے کہا کہ اس وقت یونین کونسلز کی تعداد 125 ہوگئی ہے تو آپ کو حلقہ بندیوں میں کتنا وقت لگے گا؟ ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے لیے قانون کے مطابق 60 دن کا وقت درکار ہے، عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ 60 دنوں بعد الیکشن کرانے کی پوزیشن میں ہوں گے؟

ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ کل بتایا تھا کہ پچاس سے ساٹھ کروڑ روپے خرچ ہوچکے مگر وہ اعداد و شمار غلط تھے، وہ بتانے میں غلطی ہوئی، 15 سے 16 کروڑ خرچ ہوئے ہوں گے، الیکشن کمیشن سمجھتا تھا کہ وفاقی حکومت شیڈول کے اعلان کے بعد یونین کونسلز نہیں بڑھا سکتی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی۔

جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا تو آپ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے اپنی درستگی کرلی ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست گزار کا کون سا حق متاثر ہوا؟ وہ تو الیکشن میں امیدوار ہی نہیں، عدالت نے پوچھا کہ مگر وہ اسلام آباد کا شہری ہے اور ووٹ دینا اس کا حق ہے، اس پر اٹارنی جنرل بولے کہ درخواست گزار سے ووٹ دینے کا حق کبھی بھی نہیں چھینا گیا،

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے کے بل کی صدر سے منظوری ہوچکی؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بل پاس ہو چکا ہے، صدر کی منظوری کی ایک رسمی کارروائی باقی ہے۔

جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ جب وہ حکومت میں تھے انہوں نے بھی دلچسپی نہیں لی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں کوئی سیاسی کمنٹ نہیں کروں گا مگر کیا پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہوگئے؟ اس پر عدالت نے کہا کہ وہاں کا معاملہ ہمارے سامنے نہیں ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیوں نہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا جائے؟ اس پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم نے یونین کونسلز بڑھانے کا فیصلہ مسترد کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا، ہائیکورٹ نے ہمارا وہ آرڈر کالعدم قرار دیا تھا، ہائیکورٹ نے ہمیں فریقین کو دوبارہ سن کر فیصلہ کرنے کا کہا تو ہم نے فریقین کو سن کر ہی الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ دیا۔

مکمل ریکارڈ ساتھ نہ لانے پر عدالت نے الیکشن کمیشن کے حکام پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ کو آج سارا ریکارڈ ساتھ لانا تھا، گزشتہ روز جاری کیے گئے نوٹس میں آپ کو مکمل ریکارڈ ساتھ لانے کا کہا گیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں بطور اٹارنی جنرل کورٹ کے سامنے کھڑا ہوں کسی پارٹی کی طرف سے نہیں،  مجھے اپنے علاج کے لیے بیرون ملک جانا تھا لیکن اس کیس کی وجہ سے رک گیا۔

جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ آپ تحریری طور پر آج کے دن کسی بھی وقت عدالت کو آگاہ کر دیں۔ عدالت نے وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو آج کے تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کردی اور کہا کہ جب کوئی نوٹی فکیشن فیلڈ میں نہیں تو الیکشن کمیشن کیسے حلقہ بندیاں کر سکتا ہے؟ اس وقت کوئی نوٹی فکیشن فیلڈ میں موجود نہیں، الیکشن کمیشن نے قانون کی غلط تشریح کی ہے۔

الیکشن کمیشن نے عدالت کے سامنے جواب دے دیا اور کہا کہ 31 دسمبر کو الیکشن نہیں کراسکتے اس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ 27 دسمبر تک تو یہ تیار تھے آج 29 دسمبر کو کو کہہ رہے ہیں کہ الیکشن نہیں ہوسکتے۔ وکیل جماعت اسلامی نے کہا کہ 27 دسمبر کو تو یہ ڈیوٹیاں بھی تبدیل کر رہے تھے۔

جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ آپ نے بلدیاتی الیکشن کرانے کا کوئی ٹائم فریم بھی نہیں دیا، اپنے تحریری جواب میں آپ کو یہ بھی بتانا ہے، یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے الیکشن کمیشن جلد بازی میں کیوں چلتا ہے؟ یہ لوگوں کے ووٹ کے حق کا معاملہ ہے، حقیقت پسندانہ ٹائم لائن دیں یہ نہ ہو کہیں جون 2023ء کو الیکشن ہوں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos