الیکشن مہم اور جمہوریت

[post-views]
[post-views]

پاکستان کا موڈ 2008 اور 2013 کے انتخابی جوش و خروش کے بالکل برعکس ہے۔ 8 فروری 2024 کو ملک میں ہونے والے انتخابات بالکل بھی پرجوش دکھائی نہیں دے رہے۔

سیاستدان ابھی تک  اپنے مخالفوں پر کوئی خاص تنقید کرتے دکھائی نہیں دے رہے ، پارٹی ترانے، پمفلٹ اور پارٹی کیوسک بھی نظروں سے اوجھل ہیں اور  سڑکیں بھی انتخابی تشہیر سے خالی ہیں، حالانکہ انتخابات میں محض ڈھائی ماہ کا قلیل عرصہ رہ گیا ہے۔

اس وقت بظاہر ملک میں دو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے مدمقابل دکھائی دے رہی ہیں، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی۔ تاہم تیسری جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے  جس کو بہت سے قانونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ حالات و واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے لیے، جیل اور عدالتوں کے درمیان انتخابی سیزن شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

اس وقت پی پی پی واحد سیاسی جماعت  ہے جوانتخابی جوش اور امید کوجگانے کے لیے پرعزم ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے یوم اقبال کو ایک جارحانہ مہم کا آغاز کرنے کے لیے استعمال کیا، ملک کے مختلف حصوں میں اپنے حمایوں پر زور دیا کہ وہ فتح کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اپنے خطاب میں بلاول بھٹو زرداری نے یہ مطالبہ کیا کہ ملک کو نئے خون کی ضرورت ہے۔  ان کے والد آصف علی زرداری نے پہلے ہی اپنے بیٹے کو چیف ایگزیکٹو کے عہدے کے لیے ایک اعلیٰ آپشن کے طور پر پیش کیا تھا، حال ہی میں انھوں نے ایک انٹرویو میں تجربے کی قدر پر زور دیتے ہوئے اپنی رائے کا مقابلہ کیا۔یقیناًبلاول، بھٹو نسل کے سیاستدانوں کی نئی نسل کا نمائندہ ہے۔

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

مسلم لیگ (ن) کا  انتخابات جیتنے کے لیے کمزور رویہ شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ سیاسی ریلیاں طاقت کے مظاہرے کے طور پر اہم ہوتی ہیں، ایک متحرک ریلی یا جلسہ انتخابات کے ارد گرد غیر یقینی صورتحال کو ختم کرتا ہے۔  پی ٹی آئی پہلے ہی الیکشن کمیشن پر تنقید کر رہی ہے۔ ہمارے سیاسی طبقے کو اتفاق اور استحکام کی یقین دہانی کے طور پر انتخابی مہم کی فعال شناخت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انتخابات سے لاتعلقی مایوسی اور شکوک و شبہات کو جنم دے گی کہ ریاستی مشینری کا انتظام کیا گیا ہے اور قیادت کے انتخاب کا حق مٹ گیا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos