طاہر مقصود
پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے جہاں جمہوریت، انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور سماجی انصاف جیسے اصول صرف کتابوں یا تقریروں کی حد تک محدود نہیں رہے، بلکہ عوامی شعور کا حصہ بن چکے ہیں۔ خاص طور پر متوسط طبقے اور نوجوانوں میں ان اصولوں کی گہری جڑیں بن چکی ہیں۔ وہ اب صرف سننے والے نہیں بلکہ جانچنے، پرکھنے، سوال کرنے اور ردعمل دینے والے بن چکے ہیں۔ اس بدلتی ہوئی صورتحال نے ریاست اور حکمرانی کے پرانے طریقوں کو شدید چیلنج دیا ہے۔
ماضی میں پاکستان میں حکمرانی اور طاقت کے مراکز عوامی رائے کو قابو میں رکھنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے تھے۔ مذہب، حب الوطنی، سیکورٹی کے مصنوعی خطرات، اور ریاستی بیانیے کے ذریعے عوام کو گمراہ کیا جاتا تھا۔ میڈیا پر کنٹرول، نصاب کی درپردہ تشکیل، اور سیاسی اختلاف کی دباؤ سے بیخ کنی، وہ روایتی ذرائع تھے جن کے ذریعے ایک خاص سوچ کو عوام پر مسلط کیا جاتا تھا۔ تاہم، موجودہ حالات میں یہ حربے اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔
آج کا پاکستانی شہری، خاص طور پر نوجوان نسل، اب ماضی کی نسبت کہیں زیادہ باخبر اور باشعور ہے۔ سوشل میڈیا، انٹرنیٹ، متبادل ذرائع ابلاغ، اور تعلیم کی بڑھتی ہوئی دستیابی نے اس بیداری کو مزید مضبوط کیا ہے۔ اب نوجوان صرف ریاستی بیانیہ قبول نہیں کرتے بلکہ اس پر سوال اٹھاتے ہیں، اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور اگر اسے غیر منصفانہ یا مصنوعی سمجھتے ہیں تو اسے مسترد بھی کرتے ہیں۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو نہ صرف ریاستی اداروں بلکہ سیاسی جماعتوں کے لیے بھی نیا چیلنج ہے۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com
شہری متوسط طبقہ، جو ماضی میں نسبتاً خاموش اور غیر سیاسی سمجھا جاتا تھا، اب نہ صرف سیاسی شعور رکھتا ہے بلکہ فعال بھی ہے۔ یہ طبقہ اب صرف روزگار یا معاشی استحکام کا خواہاں نہیں، بلکہ وہ شفافیت، انصاف، اور ریاستی امور میں اپنی شمولیت کو ایک بنیادی حق سمجھتا ہے۔ یہی طبقہ انتخابات میں اپنی رائے سے تبدیلی کا خواب دیکھتا ہے، عدالتوں میں بنیادی حقوق کی جنگ لڑتا ہے، اور سڑکوں پر نکل کر اپنی آواز بلند کرتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف رجحان نہیں، بلکہ ایک گہرا سماجی و سیاسی ارتقاء ہے۔
ریاستی ادارے اگر اب بھی اس غلط فہمی میں ہیں کہ وہ روایتی ہتھکنڈوں سے عوام کی رائے کو قابو میں رکھ سکتے ہیں، تو یہ ایک خطرناک خام خیالی ہے۔ موجودہ سیاسی اور سماجی ماحول میں برین واشنگ کا تصور نہ صرف غیر مؤثر ہو چکا ہے، بلکہ اس سے ریاست اور عوام کے درمیان بداعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ عوام اب صرف ان بیانیوں کو قبول کرتے ہیں جو دلیل، انصاف، اور شفافیت پر مبنی ہوں۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے نوجوان صرف ملکی مسائل سے آگاہ نہیں بلکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق، انصاف، اور جمہوریت کے اصولوں سے بھی واقف ہیں۔ وہ اپنے حق حکمرانی کو محض ووٹ ڈالنے تک محدود نہیں سمجھتے، بلکہ پالیسی سازی، بجٹ، قانون سازی، اور ادارہ جاتی شفافیت میں بھی اپنا حق تسلیم کروانا چاہتے ہیں۔ یہ وہ شعور ہے جو کسی کتاب یا مہم سے پیدا نہیں ہوا، بلکہ یہ خود عوامی تجربات، محرومیوں، اور جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
اگر سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے اس عوامی بیداری کو تسلیم نہیں کرتے، تو وہ نہ صرف اپنی ساکھ کھو بیٹھیں گے بلکہ ملک کو ایک بار پھر عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ریاست عوام کو محض “عوام” سمجھنے کے بجائے انہیں “شراکت دار” تسلیم کرے۔ پالیسی سازی، قانون سازی، اور فیصلہ سازی کے ہر مرحلے پر عوامی رائے کو اہمیت دینا ہوگی۔
پاکستان اب ایک ایسے مقام پر ہے جہاں عوامی شعور کو دبانا ممکن نہیں رہا۔ اسے نظرانداز کرنا بھی ریاست کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ اگر ریاستی ادارے اور سیاسی قوتیں اس بیداری کو سنجیدگی سے لیں، تو یہ پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع ہے کہ وہ جمہوری استحکام، ادارہ جاتی شفافیت، اور سماجی انصاف کی طرف بڑھ سکے۔ لیکن اگر اس بیداری کو نظر انداز کیا گیا، یا اسے دبانے کی کوشش کی گئی، تو اس سے عوام میں مزید بے چینی اور بداعتمادی پیدا ہوگی، جو ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان کا مستقبل اب صرف طاقت کے مراکز میں نہیں بلکہ عوام کے شعور، ان کے سوالات، اور ان کی شرکت میں ہے۔ یہی شعور اب اس ملک کی اصل طاقت ہے—جسے دبایا نہیں جا سکتا، خریدا نہیں جا سکتا، اور برین واش نہیں کیا جا سکتا۔ اسے قائل کیا جا سکتا ہے، مگر صرف انصاف، شراکت داری، اور عزتِ نفس کے ساتھ۔ یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کو ایک جدید، باوقار، اور جمہوری ریاست بنا سکتا ہے۔