مبشر ندیم
بچوں میں موبائل فون اور دیگر اسکرین آلات کا بڑھتا ہوا استعمال دنیا بھر میں ایک تحقیقی اور سماجی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے جہاں سہولتیں پیدا کی ہیں، وہیں یہ نئی نسل کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے خطرہ بھی بن گئی ہے۔ والدین کی مصروفیات، تعلیمی دباؤ اور ڈیجیٹل مواد تک آسان رسائی نے بچوں کو اسکرین سے اس قدر قریب کر دیا ہے کہ ان کی روزمرہ کی زندگی کا بڑا حصہ انہی سرگرمیوں میں گزرتا ہے۔ اس رجحان کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے مختلف تحقیقی مطالعات اور عالمی اداروں کی رپورٹس پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
امریکی ادارے عام فہم میڈیا کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق، آٹھ سے بارہ سال کے بچے اوسطاً روزانہ پانچ گھنٹے اسکرین استعمال کرتے ہیں، جبکہ تیرہ سے اٹھارہ سال کے نو عمر بچے ساڑھے آٹھ گھنٹے تک موبائل، کمپیوٹر اور ٹی وی پر مصروف رہتے ہیں۔ اسی طرح عالمی ادارۂ صحت نے اپنی سفارشات میں واضح کیا ہے کہ پانچ سے سترہ سال کی عمر کے بچوں کو روزانہ ایک گھنٹہ جسمانی سرگرمی لازمی کرنی چاہیے، لیکن اسکرین کے غیر متوازن استعمال نے اس وقت کو محدود کر دیا ہے۔ جامعہ طب اطفال امریکہ میں شائع ایک تحقیق کے مطابق، روزانہ چار گھنٹے سے زیادہ اسکرین کا استعمال بچوں میں موٹاپے اور نیند کی کمی کے امکانات کو دوگنا کر دیتا ہے۔
صحت کے پہلو سے یہ صورتحال نہایت تشویش ناک ہے۔ موبائل اور ٹیبلٹ کے زیادہ استعمال سے آنکھوں کی بینائی متاثر ہوتی ہے، سر درد عام ہو جاتا ہے اور جسمانی سرگرمیوں کی کمی سے قوتِ مدافعت کمزور ہو جاتی ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق بڑے شہروں میں پانچ سے بارہ سال کے بچوں میں نظر کی کمزوری کی شکایات تیس فیصد تک بڑھ گئی ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ اسکرین پر حد سے زیادہ وقت گزارنا ہے۔ جسمانی سست روی مستقبل میں ذیابیطس، دل کی بیماریوں اور ہڈیوں کے مسائل کا باعث بن رہی ہے، جو نئی نسل کی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
ذہنی اور نفسیاتی اعتبار سے بھی یہ رجحان تشویش ناک ہے۔ امریکی اکیڈمی برائے اطفال کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ زیادہ اسکرین استعمال کرنے والے بچے عموماً توجہ کی کمی، بے چینی اور افسردگی جیسے مسائل کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ماہرینِ نفسیات نے مشاہدہ کیا ہے کہ ڈیجیٹل انحصار بچوں کی تخلیقی سوچ کو محدود کر رہا ہے اور حقیقی کھیلوں اور سماجی میل جول کے مواقع کو کم کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے غیر ضروری استعمال سے بچوں میں خود اعتمادی کی کمی، دوسروں سے غیر صحت مند موازنہ اور جذباتی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
سماجی سطح پر بھی یہ تبدیلیاں واضح ہیں۔ پہلے بچے محلے کے دوستوں کے ساتھ کھیل کر اپنی سماجی مہارتوں کو نکھارتے تھے، لیکن اب زیادہ تر وقت موبائل کھیلوں اور ورچوئل رفاقتوں کے ساتھ گزرتا ہے۔ امریکی تحقیقی ادارے پیو کے مطابق ساٹھ فیصد والدین کا خیال ہے کہ موبائل فون نے بچوں کے خاندان کے ساتھ گزارے جانے والے وقت کو کم کر دیا ہے۔ پاکستان میں بھی والدین یہ شکایت کرتے ہیں کہ بچے کھانے کے اوقات یا خاندانی نشست کے دوران موبائل میں مصروف رہتے ہیں، جس سے خاندان کے تعلقات پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
ان چیلنجوں کے باوجود ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کے استعمال میں نہیں بلکہ اس کے غیر متوازن اور بے قابو استعمال میں ہے۔ اس کا حل والدین اور تعلیمی اداروں کے کردار سے جڑا ہوا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے اسکرین کے وقت کی سخت نگرانی کریں، اس کے لیے واضح حدود مقرر کریں اور انہیں جسمانی کھیلوں، کتابوں اور تخلیقی سرگرمیوں کی طرف راغب کریں۔ تعلیمی ادارے بچوں کو حقیقی دنیا سے جوڑنے والی سرگرمیوں جیسے کھیلوں، مباحثوں اور فنون لطیفہ کی ورکشاپس کو فروغ دیں تاکہ ان کی شخصیت ہمہ جہت ترقی کر سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ پالیسی سازی کرنے والے اداروں کو بھی قومی سطح پر آگاہی مہمات شروع کرنی چاہئیں تاکہ والدین اور بچے دونوں اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھ سکیں۔
بالآخر یہ کہا جا سکتا ہے کہ موبائل اور اسکرین کا بڑھتا ہوا رجحان ایک عالمی حقیقت ہے لیکن اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ رجحان نئی نسل کو جسمانی کمزوری، ذہنی دباؤ اور سماجی تنہائی کا شکار بنا دے گا۔ ٹیکنالوجی کے مثبت پہلوؤں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے مربوط اور تحقیق پر مبنی حکمتِ عملی اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ صرف اسی صورت میں ہم اپنی آنے والی نسل کو صحت مند، پُراعتماد اور فعال معاشرتی کردار کے ساتھ پروان چڑھا سکتے ہیں۔