اداریہ
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل ون محض ایک تعارفی دفعہ نہیں بلکہ ریاست کی نظریاتی، آئینی اور جغرافیائی شناخت کا بنیادی اعلان ہے۔ یہ آرٹیکل پاکستان کو “اسلامی جمہوریہ پاکستان” کے نام سے ایک “وفاقی جمہوریہ” قرار دیتا ہے۔ یہ الفاظ اپنے اندر ایک ریاستی نظریہ، ساخت اور وژن کو سموئے ہوئے ہیں۔ تاہم اس آرٹیکل کی عملی تعبیر اور اس کے اثرات پر تنقیدی نظر ڈالنا نہایت ضروری ہے، خصوصاً جب ملک میں وفاقیت، علاقائی خودمختاری، اور مساوی شہری حقوق کے معاملات مستقل سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔
سب سے پہلے اس بات پر غور کرنا لازم ہے کہ “وفاقی جمہوریہ” کا تصور کن معنوں کا حامل ہے۔ ایک وفاقی ریاست وہ ہوتی ہے جہاں متعدد اکائیاں — مثلاً صوبے — اختیارات کی تقسیم کے تحت مرکزی حکومت کے ساتھ اشتراک سے کام کرتی ہیں۔ یہ تصور شراکت، خودمختاری اور مساوی حیثیت پر مبنی ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان کی عملی سیاسی و انتظامی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہاں وفاق کی بجائے مرکزیت کا غلبہ دکھائی دیتا ہے، جس میں وسائل، قانون سازی، ٹیکسوں کی تقسیم، اور بیوروکریسی جیسے اہم امور میں مرکز کا غلبہ صاف نظر آتا ہے۔
“اسلامی جمہوریہ پاکستان” کے عنوان میں “اسلامی” اور “جمہوریہ” دونوں عناصر اپنی جگہ اہم ہیں، مگر مسئلہ تب جنم لیتا ہے جب ریاست کا مذہبی تشخص جمہوری اصولوں پر حاوی ہو جائے۔ جمہوریت برابری، نمائندگی اور شفافیت کا تقاضا کرتی ہے، جبکہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے میں بعض اوقات مذہب، طاقت اور روایت کی بنیاد پر مساوی حقوق کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
آرٹیکل ون کی شق دوم پاکستان کی جغرافیائی حدود کی نشاندہی کرتی ہے — چار صوبے، وفاقی دارالحکومت، اور وہ علاقے جو الحاق یا کسی اور طریقے سے پاکستان میں شامل ہوں۔ اس شق میں موجود “ایسے ریاستیں اور علاقے جو الحاق کے ذریعے شامل ہوں یا ہو سکتے ہیں” جیسے الفاظ ایک جانب تو لچکدار ہیں، لیکن دوسری جانب ریاستی ابہام کو بھی جنم دیتے ہیں۔ خصوصاً آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان جیسے علاقوں کی آئینی حیثیت واضح نہ ہونا ایک سنگین آئینی خلا ہے جو وہاں کے شہریوں کی شناخت، حقوق اور نمائندگی کو متاثر کرتا ہے۔
شق سوم میں پارلیمان کو نئے علاقے وفاق میں شامل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، جو بظاہر ایک مثبت پہلو ہے، لیکن اس اختیار کو کبھی سنجیدگی سے استعمال نہیں کیا گیا۔ یہاں بھی مسئلہ وہی ہے کہ جہاں قانون سازی اور جمہوری عمل کی ضرورت ہو، وہاں سی کیورٹی اور انتظامی کنٹرول کو فوقیت دی جاتی ہے۔
آرٹیکل میں “مجلسِ شوریٰ” کی اصطلاح کا استعمال ریاست کے اسلامی تشخص کی نمائندگی کرتا ہے، تاہم اس اسلامی شناخت کو اس حد تک محدود رکھنا چاہیے کہ وہ قانون سازی کے جمہوری دائرے کو متاثر نہ کرے۔ قانون سازی کا بنیادی مقصد تمام اکائیوں کی مساوی نمائندگی اور شفاف فیصلے ہونے چاہییں، نہ کہ مذہبی یا علاقائی اثر و رسوخ کے تحت۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ جہاں وفاقی سطح پر اختیارات کی تقسیم کی بات کی جاتی ہے، وہاں صوبوں کے اندر بلدیاتی اداروں کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا جاتا ہے جو مرکز صوبوں کے ساتھ کرتا ہے۔ یعنی اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی، جو آئین کے آرٹیکل ۱۴۰-اے میں بیان کی گئی ہے، صرف کاغذوں تک محدود ہے۔ اگر ہم واقعی وفاقی ریاست کے اصولوں پر قائم ہیں، تو ہمیں مقامی حکومتوں کو بھی آئینی تحفظ دینا ہوگا۔
آرٹیکل ون میں موجود “الحاق یا کسی اور طریقے سے” جیسے مبہم الفاظ آئندہ کے لیے آئینی اور سفارتی چیلنجز پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے مبہم الفاظ کے ذریعے ریاستی حدود یا علاقوں کی آئینی حیثیت کو غیر واضح رکھنا ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔
ریپبلک پالیسی تھنک ٹینک نے اپنے نام کا انتخاب بھی اسی آرٹیکل سے متاثر ہو کر کیا ہے، کیونکہ یہ دفعہ ایک ایسے پاکستان کا تصور پیش کرتی ہے جو وفاقی، جمہوری اور شمولیتی ہو۔ تاہم یہ تصور اس وقت تک حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتا جب تک آئینی اعلانات کو عملی اقدامات میں تبدیل نہ کیا جائے۔
آخر میں، آرٹیکل ون ایک وعدہ ہے، لیکن یہ وعدہ ابھی تک وفا نہیں ہوا۔ جب تک تمام صوبے، علاقے، اور عوام خود کو ریاست کا مساوی شہری محسوس نہیں کرتے، تب تک “وفاقی جمہوریہ پاکستان” ایک ادھورا خواب ہی رہے گا۔ اس آرٹیکل کو صرف آئین کے ابتدائی الفاظ سمجھنا غلط ہوگا؛ یہ ریاست کی روح ہے، جسے عمل، اصلاح، اور آئینی شفافیت کے ذریعے زندہ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔