ظفر اقبال
پاکستان کی اپریل 2025 کی برآمدات کے اعداد و شمار کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک بڑے بحران کی واضح نشانی ہیں۔ پاکستان ادارہ شماریات کے مطابق برآمدات میں ماہانہ 17.7 فیصد اور سالانہ 7.4 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اس کے برعکس، درآمدات میں 16 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، جس سے ہمارا تجارتی خسارہ اور بڑھ گیا ہے۔ مگر حکومتی سطح پر اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔
یہ بات زیادہ تشویش ناک ہے کہ سال کے شروع میں جو چھوٹی بہتری آئی تھی، وہ مستقل نہیں تھی بلکہ بیرونی حالات جیسے بنگلہ دیش کی غیر مستحکم صورتحال اور بھارت کی چاول کی برآمد پر پابندی کی وجہ سے تھی۔ اب جب یہ حالات بہتر ہو رہے ہیں تو پاکستان کی کمزور برآمدات دوبارہ سامنے آ گئی ہیں۔
ہمارا پرانا طریقہ کار جس میں ہم زیادہ پیداوار کر کے برآمد کرتے ہیں بجائے اس کے کہ خاص طور پر برآمد کے لیے پیدا کریں، اب کام نہیں کر رہا۔ دنیا کے دوسرے ممالک جیسے ویتنام نے جدید الیکٹرانکس اور ٹیکسٹائل میں سرمایہ کاری کر کے کامیابی حاصل کی ہے، لیکن پاکستان اب بھی خام کپاس، یارن اور چاول جیسے کم قیمت والے سامان برآمد کر رہا ہے۔ یہ ہماری برآمدات کی ساخت میں ایک بڑی خامی ہے۔
بیرونی مارکیٹوں کو سمجھنے اور ان تک پہنچنے کی کوشش بہت کم ہے۔ تجارتی سفارت کاری بند پڑی ہے اور برآمد کنندگان کو درکار سہولیات بھی فراہم نہیں کی جاتیں۔ غیر مستقل ٹیکس چھوٹ، لاجسٹک مسائل، کسٹمز میں رکاوٹیں، اور قرض تک رسائی نہ ہونا ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ چھوٹے اور درمیانے کاروبار، جو برآمدات کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، خود پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔
پاکستان کے پاس کوئی واضح برآمداتی حکمت عملی نہیں ہے۔ نہ کوئی قومی منصوبہ بندی، نہ صنعتی پالیسی جو عالمی مارکیٹ سے میل کھاتی ہو، اور نہ ہی مہارتوں اور جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری ہے۔ برآمد کنندگان کو حکمت عملی کے اہم حصہ دار نہیں سمجھا جاتا بلکہ صرف وقتی ضرورت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ریاست زیادہ تر ترسیلات زر پر انحصار کرتی ہے۔ جب بھی تجارتی خسارہ بڑھتا ہے، حکام بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں سے مدد مانگتے ہیں۔ یہ طریقہ کار دیرپا نہیں اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ یہ ہمارے مسائل کو چھپاتا ہے اور ضروری اصلاحات میں تاخیر کرتا ہے۔ ترسیلات زر پر انحصار عالمی معیشت کے اثرات سے جلد متاثر ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی سالانہ 30 ارب ڈالر کی برآمدات اور تقریباً 50 ارب ڈالر کی درآمدات صرف پالیسی کی کمی نہیں بلکہ ساختی مسئلہ ہے۔ کرنسی کی قدر کم کر کے برآمدات کو مسابقتی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر قیمت میں اضافہ، مارکیٹ کی ترقی اور سپلائی چین میں بہتری کے بغیر یہ کوششیں زیادہ دیر تک کامیاب نہیں رہتیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ سوچ بدلے: خسارہ روکنے کی بجائے صلاحیت پیدا کی جائے۔ واضح برآمداتی اہداف بنائیں، تجارتی دفاتر کو مضبوط کریں، اور خارجہ پالیسی کو اقتصادی مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔ لاجسٹک نظام کو ڈیجیٹل کریں، قوانین آسان بنائیں، اور کمپنیوں کو عالمی معیار پر پورا اترنے میں مدد دیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت برآمدات کو قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھے — یہ ملک کی اقتصادی خود مختاری اور مضبوطی کا ذریعہ ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنی معیشت کو مضبوط اور متنوع برآمدات پر بنایا ہے۔
پالیسی سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ عالمی تجارت بدل رہی ہے۔ ماحولیات کے معیار، مزدوروں کے حقوق، شفافیت اور ڈیجیٹل تجارت مارکیٹ تک رسائی کے لیے ضروری ہو رہے ہیں۔ ان شعبوں میں سرمایہ کاری نہ کرنے سے پاکستان بڑی منڈیوں سے باہر ہو سکتا ہے۔
اپریل کے اعداد و شمار صرف اعداد نہیں، بلکہ ایک انتباہ ہیں۔ یہ غفلت، وقتی سوچ اور غلط ترجیحات کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگر اب اصلاحات نہ کی گئیں تو مسائل بہت زیادہ سنگین ہو جائیں گے۔
آخر میں، پاکستان کی ترقی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی مدد یا قیمتوں کی اتار چڑھاؤ پر نہیں بلکہ اپنی پیداوار، جدت اور عالمی مقابلے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ مضبوط برآمدات کے بغیر ترقی مشکل ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ تجارت کو حکمت عملی کے طور پر لیا جائے، خیرات کے طور پر نہیں۔
برآمدات میں کمی کوئی عارضی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سنگین انتباہ ہے۔ اسے نظرانداز کرنے کی قیمت ملک کی معیشت کی سست روی اور کمزوری کی صورت میں ادا کرنی پڑے گی۔