سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

[post-views]
[post-views]

فراق گورکھ پوری کے حالات زندگی

نام رگو پتی سہائے اور فراق تخلص تھا۔ والد کا نام منشی گورکھ پرشاد عبرت تھا جو ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مشہور و مصروف وکیل بھی تھے۔ فراق 28 اگست 1896ء میں بنوار یار تحصیل بانس گاؤں ضلع گورکھ پور میں پیدا ہوئے۔ دستور زمانہ کے مطابق فراق نے ابتداء میں گھر پر ہی اردو کی تعلیم حاصل کی۔ سات سال کی عمر تھی کہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول میں داخل کر دیئے گئے۔

فراق نہایت ذہین تھے اس لیے ہر درجہ میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے رہے۔ فراق نے میسور سینٹرل کالج آلہ آباد سے بی اے کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ ان کی قابلیت سے متاثر ہو کر حکومت نے انہیں ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ کے لیے منتخب کیا، مگر فراق ڈپٹی کلکٹر بننے کے بجائے آزادی وطن کی جد و جہد میں شرکت کے لیے کانگرس میں شامل ہو گئے ۔ آزادی وطن کے لئے آواز بلند کی اور دیگر رہنماؤس کے ساتھ مل کر کام کرنے لگے۔ جس کی پاداش میں جیل بھی جانا پڑا۔ 1927ء میں جیل سے رہا ہوئے۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد کر سچن کالج لکھنو میں ملازمت کر لی۔ کچھ عرصہ بعد سناتن دھرم کالج کانپور میں اردو کے استاد مقرر کئے گئے۔ اس دوران میں فراق نے انگریزی میں ایم اے پاس کر لیا۔

Don’t forget to Subscribe our channel & Press Bell Icon.

اس کے بعد آلہ آباد یو نیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں استاد مقرر کئے گئے اور آلہ آباد میں ہی مستقل قیام رہا۔ دیگر مصروفیات کے علاوہ فراق ابتداء ہی سے اردو و ادب کی آبیاری کرتے رہے۔ اپنی ذہانت اور قابلیت کی بناء پر فراق نے ہر میدان میں امتیازی حیثیت حاصل کی۔ کی۔ بلاآخر فراق کو بڑے بڑے اعزازات سے نوازا گیا۔ انھیں گیان پیٹھ ایوارڈ بھی عطا کیا گیا۔ بلآخر فراق کی وفات 3 مارچ 1982ء کو حرکت قلب روکنے کی وجہ سے آلہ آباد میں ہوئی۔

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں

لیکن اس جلوہ گہہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست

آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا

آج ہی خاطر بیمار شکیبا بھی نہیں

بات یہ ہے کہ سکون دل وحشی کا مقام

کنج زنداں بھی نہیں وسعت صحرا بھی نہیں

ارے صیاد ہمیں گل ہیں ہمیں بلبل ہیں

تو نے کچھ آہ سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں

آہ یہ مجمع احباب یہ بزم خاموش

آج محفل میں فراقؔ سخن آرا بھی نہیں

یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور

یہ بھی سچ ہے کہ ترا حسن کچھ ایسا بھی نہیں

یوں تو ہنگامے اٹھاتے نہیں دیوانۂ عشق

مگر اے دوست کچھ ایسوں کا ٹھکانا بھی نہیں

فطرت حسن تو معلوم ہے تجھ کو ہمدم

چارہ ہی کیا ہے بجز صبر سو ہوتا بھی نہیں

منہ سے ہم اپنے برا تو نہیں کہتے کہ فراقؔ

ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos