عدالت نے کیلیفورنیا میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دے دیا

[post-views]
[post-views]

ایک وفاقی جج نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کیلیفورنیا کی نیشنل گارڈ کو لاس اینجلس میں تعینات کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے اور گورنر گیون نیوزم کو فوراً اختیار واپس دینے کا حکم دیا ہے۔

امریکی ڈسٹرکٹ جج چارلس بریئر نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ صدر نے کانگریس کے طے کردہ قانون کی خلاف ورزی کی اور نیشنل گارڈ کی تعیناتی کے لیے گورنر کی اجازت کے بغیر اقدام اٹھایا۔ ان کے مطابق، “صدر کے اقدامات غیر قانونی تھے، اور وہ کیلیفورنیا کی نیشنل گارڈ کا کنٹرول ریاستی گورنر کو فوری طور پر واپس کرے۔”

تاہم جج نے اپنے حکم پر عمل درآمد کو جمعہ کی سہ پہر تک مؤخر کر دیا تاکہ ٹرمپ انتظامیہ اپیل کر سکے، جو کہ فوراً دائر کر دی گئی۔

گورنر گیون نیوزم نے اس عدالتی فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر کہا، “عدالت نے واضح کر دیا ہے کہ فوج کا کام جنگی میدان میں ہے، شہری سڑکوں پر نہیں۔”

ٹرمپ انتظامیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ اقدام لاس اینجلس میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو قابو میں رکھنے اور امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ ایجنٹس کو تحفظ دینے کے لیے کیا گیا، تاہم ریاستی حکام کا مؤقف تھا کہ حالات ان کے قابو میں ہیں اور وفاقی مداخلت کی ضرورت نہیں۔

وفاقی عدالت میں سماعت کے دوران جج بریئر نے امریکی آئین کے متعدد حوالہ جات دیتے ہوئے واضح کیا کہ صدر کو نیشنل گارڈ کے براہ راست کنٹرول کا اختیار صرف مخصوص حالات میں حاصل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا، “یہ آئینی حکومت اور بادشاہت کے درمیان فرق ہے۔”

ٹرمپ انتظامیہ نے جس قانون کے تحت نیشنل گارڈ کو طلب کیا، وہ قانون صرف اُس وقت نافذ العمل ہوتا ہے جب بغاوت یا سرکشی ہو۔ تاہم کیلیفورنیا کی حکومت نے مؤقف اپنایا کہ مظاہرے پرامن تھے اور کسی بغاوت یا ہنگامے کے زمرے میں نہیں آتے۔

ریاستی حکومت کے مطابق مظاہروں کے دوران کچھ گرفتاریاں اور سڑکوں کی بندش ضرور ہوئی، لیکن یہ واقعات اس درجے کے نہیں تھے کہ نیشنل گارڈ کی تعیناتی کو جائز قرار دیا جا سکے۔

یہ پہلا موقع ہے جب پچاس برس بعد کسی صدر نے کسی ریاست کی نیشنل گارڈ کو گورنر کی اجازت کے بغیر فعال کیا ہو، جو کہ عام طور پر صرف قدرتی آفات یا ہنگامی صورتحال میں کیا جاتا ہے۔

یہ عدالتی فیصلہ نہ صرف آئینی حدود کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ وفاقی اختیارات کے غلط استعمال پر ایک اہم روک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اب یہ معاملہ اپیل کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جس کا فیصلہ مستقبل میں صدارتی اختیارات کی نوعیت پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos