جوش ملیح آبادی (5 دسمبر 1898 تا 22 فروری 1982) شاعر انقلاب کے نام سے مشہور پاکستانی شاعر تھے اور ان کا شمار برطانوی ہند کے دور کے بہترین اردو شاعروں میں کیا جاتا ہے۔ جوش ملیح آبادی اپنی لبرل اقدار کے لیے جانے جاتے تھے اور وہ اپنی شاعری کے ذریعے برطانوی حکومت کو چیلنج کرتے تھے۔
جوش ملیح آبادی کے طرز تحریر کی جڑیں غزل اور نظم کی روایتی شکلوں میں گہرائی سے پیوست ہیں، لیکن اس میں الفاظ کے آزادانہ استعمال اور آزاد نظم کی طرف مضبوط جھکاؤ بھی نمایاں ہے۔ درحقیقت، انہیں غزل کے اپنے اسلوب کو بیان کرنے کے لیےغزلِ جزبہ کی اصطلاح تیار کرنے کا سہرا دیا جاتا ہے، جو روایتی انداز سے زیادہ کھلا اظہار ہے۔جوش ملیح آبادی کی شاعری مضبوط سماجی اور سیاسی تبصروں کے لیے جانی جاتی ہے اور وہ اکثر اپنی شاعری کا استعمال قائم شدہ نظام کو چیلنج کرنے اور پسماندہ لوگوں کے حقوق کی حمایت کرنے کے لیے کرتے تھے۔
فردوس بنائے ہوئے ساون کے مہینے
اک گل رخ و نسریں بدن و سرو سہی نے
ماتھے پہ ادھر کاکل ژولیدہ کی لہریں
گردوں پہ ادھر ابر خراماں کے سفینے
مینہ جتنا برستا تھا سر دامن کہسار
اتنے ہی زمیں اپنی اگلتی تھی دفینے
اللہ رے یہ فرمان کہ اس مست ہوا میں
ہم منہ سے نہ بولیں گے اگر پی نہ کسی نے
وہ مونس و غم خوار تھا جس کے لیے برسوں
مانگی تھیں دعائیں مرے آغوش تہی نے
گل ریز تھے ساحل کے لچکتے ہوئے پودے
گل رنگ تھے تالاب کے ترشے ہوئے زینے
بارش تھی لگاتار تو یوں گرد تھی مفقود
جس طرح مئے ناب سے دھل جاتے ہیں سینے
دم بھر کو بھی تھمتی تھیں اگر سرد ہوائیں
آتے تھے جوانی کو پسینے پہ پسینے
بھر دی تھی چٹانوں میں بھی غنچوں کی سی نرمی
اک فتنۂ کونین کی نازک بدنی نے
گیتی سے ابلتے تھے تمنا کے سلیقے
گردوں سے برستے تھے محبت کے قرینے
کیا دل کی تمناؤں کو مربوط کیا تھا
سبزے پہ چمکتی ہوئی ساون کی جھڑی نے
بدلی تھی فلک پر کہ جنوں خیز جوانی
بوندیں تھیں زمیں پر کہ انگوٹھی کے نگینے
شاخوں پہ پرندے تھے جھٹکتے ہوئے شہ پر
نہروں میں بطیں اپنے ابھارے ہوئے سینے
اس فصل میں اس درجہ رہا بے خود و سرشار
میخانے سے باہر مجھے دیکھا نہ کسی نے
کیا لمحۂ فانی تھا کہ مڑ کر بھی نہ دیکھا
دی کتنی ہی آواز حیات ابدی نے
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.