پاکستان میں غیرجانبدار، منصفانہ اور قابلِ اعتبار انتخابات

[post-views]
It is evident now that care taker governments in Punjab and KPK are violating their constitutional role to hold transparent elections.
[post-views]

ادارتی تجزیہ

حالیہ ضمنی انتخاب برائے پی پی-52، سمبڑیال (سیالکوٹ) نے ایک بار پھر پاکستان میں آزاد، منصفانہ اور شفاف انتخابات کی اہمیت کو اجاگر کر دیا ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی امیدوار حنا ارشد وڑائچ نے واضح برتری سے کامیابی حاصل کی، تاہم پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے دھاندلی کے الزامات نے انتخابی عمل کی شفافیت پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔

کسی بھی جمہوریت میں انتخابات صرف ووٹ ڈالنے کا عمل نہیں بلکہ عوامی اعتماد اور سیاسی قیادت کی قانونی حیثیت کا تعین کرتے ہیں۔ اگر عوام یا سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج پر اعتماد نہ کریں تو اس سے جمہوری نظام کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں، حکمرانی کا جواز کمزور پڑتا ہے اور سیاسی عدم استحکام جنم لیتا ہے۔

پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے پولنگ ایجنٹس کو متعدد پولنگ اسٹیشن سے نکالا گیا اور فارم 45 کے اعداد و شمار میں اختلاف پایا گیا ہے۔ تاہم الزامات کو موثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پی ٹی آئی تمام پولنگ اسٹیشن کے اصل فارم 45 اکٹھے کرے، انہیں ریٹرننگ آفیسر کے جاری کردہ نتائج سے موازنہ کرے، اور کسی بھی تضاد کو ٹھوس شواہد کے ساتھ واضح کرے۔

دوسری جانب، انتخابی کمیشن کا آئینی فریضہ ہے کہ وہ ہر انتخاب کو شفاف، غیر جانبدار اور قابلِ اعتماد بنائے۔ انتخابات کی ہر سطح پر نگرانی، نتائج کا بروقت اور شفاف اجراء، اور شکایات کے ازالے کے لیے مؤثر نظام کا قیام ناگزیر ہے۔

پاکستان مزید انتخابی تنازعات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پی پی-52 کا ضمنی انتخاب ایک انتباہی مثال ہے، جس سے سبق سیکھتے ہوئے نظامِ انتخابات میں اصلاحات کی فوری ضرورت ہے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو اور جمہوری نظام مضبوط بنیادوں پر استوار ہو۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos