کیا پاکستان میں اظہارِ رائے کی آزادی واقعی محفوظ ہے؟

[post-views]
[post-views]

صفیہ رمضان

پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 ہر شہری کو اظہارِ رائے اور آزادیِ صحافت کا حق دیتا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ: “ہر شہری کو آزادیِ اظہار کا حق حاصل ہوگا، اور پریس کو بھی آزادی حاصل ہوگی، لیکن یہ سب کچھ کچھ قانونی پابندیوں کے تابع ہوگا، جیسے کہ اسلام کی عظمت، پاکستان کی سلامتی، غیر ملکی ریاستوں سے دوستانہ تعلقات، عوامی نظم، اخلاقیات، عدالت کی توہین، یا کسی جرم کی ترغیب وغیرہ۔” ان پابندیوں کا خلاصہ ایک ہی جملے میں کیا گیا ہے: “قانون کے تابع”۔

یہی الفاظ “قانون کے تابع” اکثر اس آزادی کو محدود کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج کے پاکستان میں یہ قانونی شرط آزادی کو تحفظ دیتی ہے یا اسے دبانے کا راستہ بن گئی ہے؟

اظہارِ رائے کی آزادی کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے لوگ حکومت سے سوال کرتے ہیں، پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں، اور اپنے خیالات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں یہ آزادی مسلسل دباؤ کا شکار ہے۔ چاہے وہ صحافی ہوں، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ، یا عام شہری—اگر وہ ریاستی پالیسیوں پر تنقید کریں تو ان پر مقدمے بن جاتے ہیں، دھمکیاں ملتی ہیں یا جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔

آرٹیکل 19 میں جو پابندیاں بتائی گئی ہیں، وہ اکثر مبہم اور غیر واضح ہوتی ہیں۔ جیسے “اسلام کی عظمت” یا “ملکی سلامتی”—یہ الفاظ کسی مخصوص قانون کی بجائے ایک عمومی مفہوم رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کا غلط استعمال آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ کوئی اگر سوشل میڈیا پر کسی پالیسی پر تنقید کرے تو اسے آسانی سے ملک دشمن یا ریاست مخالف قرار دیا جا سکتا ہے۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

اس کی ایک بڑی مثال “پیکا قانون” یعنی پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 ہے۔ اس قانون کا مقصد سائبر جرائم کو روکنا تھا، لیکن حقیقت میں اسے آزادیِ اظہار کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ کئی صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کے خلاف صرف اس لیے مقدمے بنائے گئے کیونکہ انہوں نے کسی حکومتی پالیسی یا ادارے پر تنقید کی۔

اسی طرح توہینِ مذہب کے قوانین بھی اکثر افراد کو خاموش کروانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ان قوانین کے تحت صرف کسی الزام پر ہی لوگوں کی جانیں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ اس خوف کی وجہ سے لوگ دینی، علمی یا سماجی مسائل پر بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔

میڈیا کا حال بھی کچھ بہتر نہیں۔ کئی نیوز چینلز کو بند کر دیا گیا، اخباروں کی ترسیل روکی گئی، ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں۔ صحافیوں کو اغوا یا ہراساں کیا گیا، اور ان پر ایسے مقدمات بنائے گئے جن کا مقصد صرف ان کی زبان بند کرنا تھا۔ کئی صحافی اعتراف کرتے ہیں کہ کچھ “ریڈ لائنز” ہیں جن کو وہ عبور نہیں کر سکتے، ورنہ ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا، جو کبھی آزاد سمجھا جاتا تھا، اب مکمل نگرانی میں ہے۔ آن لائن نگرانی، جھوٹی خبریں پھیلانے کی مہمات، اور خاص طور پر خواتین کو نشانہ بنا کر ہراساں کرنا ایک عام بات بن چکی ہے۔ ایسے ماحول میں کوئی بھی کھل کر بات کرنے سے ڈرتا ہے۔

ظاہر ہے، کسی بھی معاشرے میں آزادیِ اظہار کی کچھ حدیں ہوتی ہیں۔ نفرت انگیز تقریر، تشدد کی ترغیب، یا کسی کی عزت کو نقصان پہنچانا ہر ملک میں جرم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ان حدود کو واضح، منصفانہ اور غیر جانبدار طریقے سے نافذ کیا جانا چاہیے۔ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ ان حدود کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

عدلیہ کا کردار بھی اس معاملے میں کمزور دکھائی دیتا ہے۔ عدالتیں اکثر ایسے مقدمات میں مظلوم کو فوری ریلیف نہیں دیتیں، یا پھر ریاستی مؤقف کو ترجیح دیتی ہیں۔ جب عدالتیں اظہارِ رائے کی حفاظت نہیں کرتیں، تو لوگ عدالتی نظام سے بھی مایوس ہو جاتے ہیں۔

اگر پاکستان میں واقعی اظہارِ رائے کو محفوظ بنانا ہے تو ہمیں اپنے قوانین میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ میڈیا اور سائبر قوانین کو جمہوری اصولوں کے مطابق دوبارہ ترتیب دینا ہوگا۔ پیم را اور پی ٹی اے جیسے اداروں کو خود مختار اور شفاف بنانا ہوگا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں ایک ایسا کلچر پیدا کرنا ہوگا جس میں اختلافِ رائے کو بغاوت نہ سمجھا جائے، بلکہ اسے ترقی کا راستہ تصور کیا جائے۔

عام لوگوں، صحافیوں، اساتذہ، اور وکلا کو بھی اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانی ہوگی۔ آزادیِ اظہار صرف ایک قانونی حق نہیں بلکہ ایک قومی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر معاشرہ سچ سے محروم ہو جاتا ہے، اور ترقی کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔

آخر میں، آئین کا آرٹیکل 19 ہمیں آزادی دیتا ہے، مگر “قانون کے تابع”۔ یہ شرط تب تک درست ہے جب تک قانون انصاف کے ساتھ نافذ ہو۔ اگر قانون کو صرف طاقتور کی حفاظت کے لیے استعمال کیا جائے اور کمزور کی آواز دبائی جائے، تو پھر یہ آزادی صرف ایک کتابی بات رہ جاتی ہے، حقیقت نہیں۔

جب تک ہم آزادیِ اظہار کے اصل مفہوم کو سمجھ کر اسے ہر شہری کے لیے محفوظ نہیں بناتے، پاکستان کا آئندہ جمہوری سفر غیر محفوظ اور نامکمل رہے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos