اظہارِ رائے کی آزادی یا ڈیجیٹل سنسرشپ؟ ایک فکری مکالمہ

[post-views]
Social media has revolutionised individual and collective life in Pakistan. However, it needs regulations ensuring freedom of expression.
[post-views]

وسیم ایاز

اکیسویں صدی کا فرد ایک باشعور، باخبر اور بااختیار شہری ہے، جو معلومات تک فوری رسائی رکھتا ہے، سوال اٹھانے کی صلاحیت سے مالا مال ہے، اور عالمی مکالمے کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ ایسے دور میں اگر کوئی ریاست یہ سمجھتی ہے کہ سوشل میڈیا پر سخت کنٹرول نافذ کر کے مسائل کو دبایا جا سکتا ہے، تو یہ محض ایک خطرناک خوش فہمی ہے — یہ مسئلے حل نہیں کرتی، بلکہ ان پر پردہ ڈالتی ہے۔

ریاستیں ہمیشہ سے بیانیے پر اجارہ داری کی خواہاں رہی ہیں۔ پہلے اخبارات پر پابندیاں، پھر عدالتی و حکومتی معلومات کی خفیہ کاری، اور اب ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا پر مکمل کنٹرول — یہ سب اس ایک پرانے رویے کی نئی شکلیں ہیں، جس کا نچوڑ یہ ہے: “سچ صرف وہی ہے جو ریاست کہتی ہے”۔ تاہم عالمی تجربات واضح کرتے ہیں کہ یہ ماڈل نہ صرف ناکام ہو چکا ہے، بلکہ ریاستی نظاموں کو ان کے ہی عوام سے خوفزدہ کر دیتا ہے۔

سوشل میڈیا بذات خود کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ ان اصل سوالات کا آئینہ ہے جنہیں دبایا جا رہا ہے۔ جب عوام پوچھتے ہیں کہ مہنگائی کیوں ہے، انصاف کیوں ناپید ہے، وسائل صرف خواص تک محدود کیوں ہیں، یا نوجوان ڈگری لے کر ٹیکسی کیوں چلاتا ہے— تو اصل تکلیف ان آوازوں سے ہوتی ہے، نہ کہ سوشل میڈیا سے۔

اظہارِ رائے پر قدغن درحقیقت ریاستی انکار کا اعلان ہوتا ہے، جو مکالمے کا دروازہ بند کر دیتا ہے۔ اس انکار کے نتیجے میں معاشرے میں بیزاری، شکوک، انتہاپسندی اور بغاوت جیسی کیفیات جنم لیتی ہیں۔ قرآن مجید میں سورۃ المجادلہ کی ابتدائی آیت خود اس اصول کو واضح کرتی ہے کہ کمزور کی آواز بھی سنی جانی چاہیے — یہی اسلامی، جمہوری اور انسانی شعور کی بنیاد ہے۔

اگر سوشل میڈیا کے منفی پہلو موجود ہیں — جیسے غلط معلومات، نفرت انگیزی یا انتہا پسندی — تو ان کا حل “بندش” نہیں بلکہ “دانشمندانہ پالیسی” ہے۔ مواد کی نگرانی اور حقائق کی تصدیق جیسے طریقے دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتوں (مثلاً فن لینڈ، جرمنی، نیوزی لینڈ) میں مؤثر ثابت ہو چکے ہیں، جہاں آزادیِ اظہار اور ذمہ داری کا توازن قائم رکھا گیا ہے۔

پاکستان جیسے نوجوانوں کی اکثریتی آبادی والے ملک میں سوشل میڈیا روزگار، تعلیم، برآمدات اور خودمختاری کا ایک بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ فری لانسنگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور آن لائن کاروبار لاکھوں پاکستانی نوجوانوں کو معاشی خودکفالت کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اس پلیٹ فارم کو بند کرنا نہ صرف اظہار بلکہ معیشت کا بھی گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔

ریاست کے سامنے اب دو راستے ہیں: یا تو وہ خوف کا نظام اپنائے، جہاں ہر اختلاف جرم ہو؛ یا وہ شہریوں کو شراکت دار سمجھے، اور تنقید کو اصلاح کا ذریعہ بنائے۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے جو پہلے ہی دہشت گردی، بدعنوانی اور معاشی بحرانوں کا سامنا کر چکا ہے، اب اس بنیادی انتخاب میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔

آخر میں، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کو بند کرنا آسان ہو سکتا ہے، لیکن ایک پورے معاشرے کو خاموش کرنا ممکن نہیں۔ ایک ذمہ دار ریاست وہی ہوتی ہے جو اظہارِ رائے کو دبانے کے بجائے اسے نکھارنے کے لیے شفاف، مؤثر اور دور اندیش پالیسیاں اختیار کرے۔ یہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos