مرکزیت سے وفاقیت تک

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

پاکستان ایک متنوع معاشرہ ہے جس میں لسانی، ثقافتی، نسلی اور جغرافیائی تنوع کی گہری بنیادیں موجود ہیں۔ اس متنوع ریاستی ڈھانچے کو فعال، مؤثر اور پائیدار بنانے کے لیے ایک ایسا گورننس ماڈل درکار ہے جو مقامی شناختوں کو تسلیم کرے اور اختیارات کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے۔ تاہم، بدقسمتی سے پاکستانی ریاست کا موجودہ نظام گہرے مرکزیت پر مبنی ہے، جو نہ صرف گورننس کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ قومی وحدت کے لیے بھی ایک مستقل چیلنج بن چکا ہے۔

مرکزیت کا یہ ماڈل نوآبادیاتی دور کی باقیات ہے، جو اختیارات کو اسلام آباد یا لاہور جیسے مرکزی شہروں تک محدود رکھتا ہے۔ اس طرز حکمرانی میں صوبوں، اضلاع، اور بالخصوص مقامی حکومتوں کو مسلسل نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں محرومی، احساسِ بیگانگی اور سیاسی بے اعتمادی جنم لیتی ہے، جو ریاستی ڈھانچے کو اندر سے کمزور کرتی ہے۔

فیڈرلزم یا وفاقیت ایک ایسا نظام ہے جس میں اختیارات، وسائل اور فیصلہ سازی کی صلاحیت نچلی سطح تک منتقل کی جاتی ہے۔ یہ ماڈل صرف سیاسی خوش نمائی نہیں بلکہ ایک عملی تقاضا ہے جس کی کامیاب مثالیں بھارت، امریکہ، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک میں موجود ہیں۔ فیڈرلزم کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ جو مسائل مقامی ہیں، ان کے حل بھی مقامی سطح پر ہی زیادہ مؤثر طریقے سے نکالے جا سکتے ہیں۔

پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے کچھ حد تک وفاقیت کی طرف قدم بڑھایا گیا، لیکن عمل درآمد کی راہ میں مرکزیت پرست بیوروکریسی، طاقتور وفاقی ادارے اور سیاسی مفادات اب بھی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ صوبوں کو دیے گئے آئینی اختیارات اکثر فنڈز، ادارہ جاتی صلاحیت اور سیاسی ارادے کی کمی کی وجہ سے محض کاغذی حد تک محدود رہتے ہیں۔ جب تک وفاقیت کو مکمل طور پر نافذ نہیں کیا جاتا، نہ تعلیم میں بہتری آ سکتی ہے، نہ صحت میں سہولیات کی فراہمی ممکن ہے، نہ ہی روزگار کے مواقع مساوی طور پر فراہم کیے جا سکتے ہیں۔

یہ بھی قابلِ غور امر ہے کہ فیڈرلزم صرف اختیارات کی تقسیم کا نام نہیں بلکہ ایک سیاسی کلچر ہے—ایک ایسا کلچر جو مکالمے، اشتراک، خودمختاری اور مقامی مسائل کے مقامی حل کو فروغ دیتا ہے۔ وفاقیت سے محروم نظام میں نہ صرف ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے بلکہ سیاسی عدم استحکام اور ریاستی انتشار کو بھی تقویت ملتی ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم قومی وحدت کے نعرے کو محض مرکزیت کے پردے میں چھپانے کے بجائے، اسے حقیقی معنوں میں بااختیار وفاقی اکائیوں کی شراکت سے ممکن بنائیں۔ ایک مضبوط پاکستان وہی ہو سکتا ہے جہاں بلوچستان کو احساسِ شراکت ہو، سندھ کو اپنی ثقافت کے اظہار کی آزادی ہو، خیبر پختونخوا کو اپنی ترقی کی سمت طے کرنے کا اختیار ہو، اور پنجاب کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو غیرمرکزی کردار میں نبھانے کا موقع ملے۔

نتیجہ

پاکستان کی بقا، ترقی اور قومی ہم آہنگی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم مرکزیت کی بوسیدہ بنیادوں کو چھوڑ کر ایک جامع، فعال اور حقیقی فیڈرل سسٹم کی طرف بڑھیں۔ جب تک ریاست کے تمام حصے خود کو اس کا بااختیار اور مساوی فریق محسوس نہیں کرتے، گورننس کا نظام نہ تو فعال ہو سکتا ہے، نہ پائیدار، اور نہ ہی قابلِ قبول۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos