Premium Content

“گھڑی اور منحوس گھڑی”

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں۔

گئے دنوں میں شمالی علاقہ جات کے بعض حصوں میں شادی کے وقت، دولہے کے گلے میں گھڑی والاا ہار ڈالنے کارواج تھا۔ ہمارے ہاں بھی ابھی تک بعض علاقوں میں نوٹوں کے ہار ڈالے جاتے ہیں اورہارمیں نوٹ کے ساتھ پھول لگادیئے جاتے ہیں۔ شمالی علاقہ جات کے بعض حصوں میں ”گھڑی“ کے اردگردنوٹ لگادیئے جاتے تھے۔ایک چترالی دوست سے اس کی وجہ پوچھی تو اُس نے بتایا کہ ”گھڑی“ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اگر کل کلاں دولہا دولہن کی ان بن ہو جائے تو دولہا کو یہ یاد کرنے میں سہولت رہے کہ وہ کون سی منحوس ”گھڑی“ تھی جس کی بدولت وہ اس مصیبت میں گرفتار ہوا۔ پنجاب میں تو لوگ ساری زندگی یہی سوچتے رہتے ہیں کہ وہ کون سی منحوس ”گھڑی“ تھی جس کی بدولت یہ وقت آیا اور اسی سوچ میں اپنی ساری زندگی تباہ کرلیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔دولہا کو بھی پتہ ہوتا ہے اورساری دنیا کواُس منحوس”گھڑی“کا پتہ ہوتا ہے،جس کی برکت سے آج کا دن دیکھنے کو ملا۔بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ وہ ”گھڑی“ چلتی رہتی ہے اور دولہا دولہن اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔

           مادیت کے اس دور میں غریب آدمی کیلئے ہر گھڑی ہی منحوس”گھڑی“ ہے اور اُس کی زندگی کی ہر سانس بہت کڑی ہے۔ تیسری دنیا اوراُمت مسلمہ کیلئے شاعر کا یہ قول بالکل درست ہے کہ ”ہم عرصہ محشرمیں ہیں اور یہ محشر کی گھڑی ہے“۔ عام آدمی ساری زندگی سوئیٹزرلینڈکی ”گھڑی“کے خواب دیکھتا ہے تو شاعرکی ساری زندگی وصل کی ”گھڑی“ کے خواب دیکھنے میں گذر جاتی ہے۔ کسی کو ”راڈو“نہیں ملتی تو کسی کو”لاڈو“ نہیں ملتی۔اکثر شادی شدہ حضرات ساری زندگی”چین“کی”گھڑی“کی تمنامیں گزار دیتے ہیں مگرملتی اُن کو”چین“کی ”گھڑی“ ہے۔ عمر تمام ہوجاتی ہے مگرسکون حاصل کرنے کاخواب،خواب ہی رہتا ہے۔بعض اوقات توعذاب بن جاتا ہے اوربہت ستاتاہے۔

          انگریزی کا محاورہ ہے کہ ”ایک آدمی کی زندگی کی منحوس ترین گھڑی دوسرے آدمی کی زندگی کی بہترین گھڑی ثابت ہوسکتی ہے بلکہ اکثر اوقات ہوتی بھی ہے“۔ایک دوسرے کی مشکل ”گھڑی“سے فائدہ اٹھانے کارواج اب ہمارے ہاں بھی عام ہوتا جارہاہے          انگریزی کا محاورہ ہے کہ ”ایک آدمی کی زندگی کی منحوس ترین گھڑی دوسرے آدمی کی زندگی کی بہترین گھڑی ثابت ہوسکتی ہے بلکہ اکثر اوقات ہوتی بھی ہے“۔ایک دوسرے کی مشکل ”گھڑی“سے فائدہ اٹھانے کارواج اب ہمارے ہاں بھی عام ہوتا جارہاہے اگرچہ ہاتھ والی ”گھڑی“ کارواج ختم ہوتاجارہا ہے مگر لگتا یوں ہے کہ اب ہر”گھڑی“ کوئی نہ کوئی آپ سے ہاتھ کر جاتا ہے۔

          ایک دانا کاقول ہے کہ ”قدرت تو انسان کوگھڑی دیتی ہے اُس گھڑی کو انمول یامنحوس بناناانسان کی اپنی محنت پرمنحصرہے“  ایک شاعر نے پوچھاتھاکہ ”تقدیرکے موسم میں کتنی محنت کی جاسکتی ہے“؟ لیکن چند سمجھدارلوگ شاعر کے اس قول سے متفق نہیں اور اُن کا یہ کہنا ہے کہ ”گھڑیال ہرگھڑی یہ اعلان کرتا رہتا ہے عمر کی نقدی  کم ہورہی ہے انسان کو خواب غفلت سے باہر نکل آناچاہیے“۔

Don’t forget to Subscribe our channel and Press Bell Icon.

          الہامی کتب میں مذکور ہے کہ ایک”گھڑی“ ایسی بھی تھی کہ جب انسان کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا مگر پھر ایک”گھڑی“ ایسی بھی آتی ہے جب انسان اور کسی کو قابل ذکر نہیں سمجھتاحتی کہ اپنی بنانے والی ذات کے بارے میں بھی جھگڑا شروع کردیتا ہے اسی لیئے ہمارے علاقے میں کہا جاتا ہے کہ”گھڑی گھڑی کی بات الگ ہے“۔کسی دانشمند کاقول ہے کہ”زندگی دو”گھڑی“ کاہی تونام ہے ایک ”گھڑی“ حق میں ہوتی ہے تو دوسری خلاف“مگر ہر ”گھڑی“ انسان کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ”یہ وقت بھی گذرہی جائے گا“۔

          چوہدری امین صاحب، ریٹائرڈآئی جی، اپنی کتاب میں زندگی کی بے ثباتی کی مثال کچھ اس طرح دیتے ہیں کہ ایک بار،ایک کارجس میں کچھ نوجوان سوار تھے، نہر میں گر گئی۔ جب کار کو باہر نکالا گیا تو ایک نوجوان کی کلائی پر بندھی ”گھڑی“ چل رہی تھی مگر اُس کی سانسیں رُکی ہوئی تھیں۔اس میں سمجھنے والوں کیلئے نشانی ہے اورسوچنے والوں کیلئے سوچنے کا سامان۔

آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔

          میرا گمان تو یہ ہے کہ رب کائنات نے انسان کواُس کی زندگی کی ہر”گھڑی“ بہت رحمت اور برکت کے ساتھ عطا کی ہے اور ساتھ یہ اختیار بھی دے دیا ہے کہ وہ اس”گھڑی“ کو بہترین بنا لے یابدترین۔”گھڑی“ تو”گھڑی“ ہوتی ہے اُس کو منحوس یاسعد بنانا ہمارا اپنا اختیار ہے۔وقت کی”گھڑی“ تو ہر کسی کو میسر ہوتی ہے مگر کوئی اس کاصحیح استعمال کرکے اپنی دنیا اورآخرت بہتر کرلیتا ہے تو کوئی اس کا غلط استعمال کرکے ہرساعت کو اپنے لیئے گالی بنا لیتا ہے۔ کسی کی زندگی مثالی ہوتی ہے تو کسی کی وبالی۔کسی کی عملی تو کسی کی خیالی۔

          فیض صاحب نے کہا”جسم و جان کی تکمیل کی گھڑی ابھی نہیں آئی۔خواب ابھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے۔ اس لیئے محنت کا کارواں ابھی رواں دواں رہنا چاہیے۔ اُمیدیں جوان رہنی چاہیں اور لگن کا سفر جاری رہنا چاہیے۔آئیں آج ہم مل کر یہ عہد کریں کہ ہماری ہر”گھڑی“ پرپہلا حق پاکستان کا ہے۔اس وقت ہمارے ملک کو ہماری ”گھڑی“،”گھڑی“ کی ضرورت ہے اور اب اس میں اب ایک ”گھڑی“ کی بھی تاخیر ہماری آئندہ نسلوں کیلئے بہت کڑی ہوگئی اور ہماری یہ غلطی بہت بڑی ہوگی۔ اقبال تو پہلے ہی کہہ گئے تھے کہ ”فطرت ملت کے گناہوں کو معاف نہیں کرتی“ آیئے اپنی گذشتہ غفلت کا کفارہ کریں اور اپنے ملک کے رہنے والوں کی ہر ”گھڑی“  بہترین بنانے کیلئے اپنی ”گھڑی“، ”گھڑی“وقف کردیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos