ناصر عباس نیّر
دنیا میں سب سے بھیانک ، سب سے ہیبت ناک ، سب سے زیادہ دل کو چیر ڈالنے والی چیزکیا ہے؟
ریپ۔
ایک عورت پر ایک یا زیادہ مردوں کا جنسی تشدد۔
ریپ، ایک انسانی وجود کو طاقت کے انتہائی بہیمانہ استعمال کے ساتھ زیر کرنے اورا س کی مزاحمت کو کچل ڈالنے کی بدترین صورت ہے۔
کوئی انسانی وجود، محض جسم نہیں ہوتا؛ اس میں محض خون کی گردش ، دھڑکتا دل ، اپنی بقا کی جبلت ہی نہیں ہوتی۔
انسانی جسم بھی کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔
وہ حیاتی ارتقا کی ایک طویل مسافت کا حاصل ہے۔
وہ حیات کا ایک حیرت کدہ ہے۔
ایک جسم کو باقی رکھنے میں فطرت کی کتنی قوتیں ہمہ وقت کام آرہی ہوتی ہیں۔زمین ، فضا ،آفتاب ، سب جسم کی بقا کے لیے سرگرم ہیں۔
جسم ،انسان کی واحد نجی چیز ہے۔
تما م نجی چیزوں کی حرمت ہوا کرتی ہے۔
اس سب کے باوجود انسانی وجود محض جسم نہیں ہے۔
انسانی جسم اگر حیاتی ارتقا کی طویل مسافت کاحاصل ہے تو انسانی وجود تہذیبی ارتقا کے لمبے سفر کا حامل ہے۔
ایک انسانی وجود میں تہذیب انسانی کے کتنے ہی حاصلات مجسم ہوتے ہیں
ریپ میں صرف جسم کی توہین نہیں کی جاتی، انسانی روح ، دل ، تخیل کو بھی کچلا جاتا ہے۔
اس ذہن کو بھی روند اجاتا ہے جو دنیا کو سوچتا، دنیا کو سراہتا ہے ، دنیا پر سوال کرتا ہے، دنیا کو بہتر بنانے کا خواب دیکھتا ہے۔
وہ ایک اپنی دنیا تعمیر کرنا چاہتا ہے اور اس میں امن ومسرت سے جینا چاہتا ہے۔
ایک عورت کی روح ، دل اور تخیل میں کتنے اسرار ہوتے ہیں، کون جانتا ہے؟
مگر کون ہے جو ان اسرار کی تقدیس کو محسوس نہیں کرتا؟
قدیم اساطیر ہوں کہ جدید آرٹ ، عورت کے وجود کے یہ اسرار کہاں نہیں ہیں۔
تہذیب کی کہانی میں فخر کے قابل کئی واقعات عورت کے مرہون ہیں۔
ریپ کرنے والا، انسانی وجود ، حیات، ارتقا،تہذیب ، اقدار، تقدیس ، آرٹ،سب کی بے حرمتی کا مرتکب ہوتا ہے۔
اس کے دل میں طاقت وجنس کی ہوس ہوتی ہے، اور بھیانک تاریکی کا سمندر ہوتا ہے۔
وہ ایک بے بس نسوانی وجودکو قابو میں لانے میں شیطانی لذت محسوس کرتا ہے۔
وہ چیخوں ،کراہوں، سسکیوں ، یہاں تک کے خون کے آنسوؤں پر قہقہ زن ہوتا ہے۔
اس کا دل رحم ، ترس، تاسف سے خالی ہوتا ہے ۔
وہ آد می کی صورت میں، ایک تیرہ دروں،بد باطن ،آہن دل عفریت ہوتا ہے
ایسے عفریت کے کار سیاہ کو انسانی تاریخ محفوظ کرتے ہوئے بھی کراہت اور انسانی تہذیب شرم محسوس کرتی ہے