تحریر: نعمان جمیل بٹ
آپ مولانا طارق جمیل صاحب کی مثال لے لیجئے۔ آج سے چند سال پہلے طارق جمیل وطن عزیز کی ہر دلعزیز شخصیت تھے، ہر طبقےمیں ان کی عزت تھی، حتیٰ کہ ان کے مخالفین بھی ان کی عزت کرتے تھے، انہیں محرم الحرام کے دوران خطاب کےلیے اہل تشیع کی مجالس میں بھی مدعو کیا جاتا تھا۔ شاید ہی ایسا کوئی رکن پارلیمنٹ ہو جو ان کی عزت نہ کرتا ہو۔ وہ پاکستان کے گنتی کے چند ان علما میں شامل تھے جو کلثوم نواز کا جنازہ بھی پڑھا لیتے تھے اور عمران خان کے ساتھ افطاری بھی کرلیتے تھے۔
پھر یوں ہوا کہ مولانا طارق جمیل، عمران خان کی اس بات سے کہ ’’مولانا میں چاہتا ہوں کہ میرے نوجوان نبیؐ کی سیرت کو اپنائیں‘‘ ان کے گرویدہ ہوگئے۔ عمران خان کی محبت میں وہ اس قدر آگے نکل گئے کہ ان پر پی ٹی آئی کے درباری ملا ہونے کا شبہ ہونے لگا۔ نادانستہ طور پر وہ میڈیا اور دیگر سیاسی جماعتوں پر تنقید کرتے نظر آئے اور آج حالت یہ ہے کہ غیر تو غیر، وہ اپنوں میں بھی غیر معتبر ہوتے نظر آرہے ہیں اور آج کل کھلم کھلا تنقید کی زد میں ہیں۔ یعنی وہ شخص جس کا نام کل تک ہر کوئی ادب سے لیتا تھا، ایک پارٹی کی چھاپ لگتے ہی غیر معتبر اور غیر محترم ہوچکا ہے۔
ایسی ہی کچھ حالت مریم نواز کی ہے۔ مریم نواز بطور ایک بیٹی بے حد قابل احترم ہیں، ایک ماں کے طور پر آپ کے قدموں کے نیچے جنت ہے، بجا طور پر بطور ایک بہن قابل فخر ہیں۔ اگر آپ مسلم خواتین کی طرح پردے کے پیچھے اپنا کردار ادا کریں تو آپ کےلیے زیادہ بہتر ہوگا۔ اور اگر آپ بطور سیاسی لیڈر میدان میں اتریں اورآپ پر ذومعنی تنقید ہوتو پھر بھی قابل مذمت ہے۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایسی تنقید سے بچا نہیں جاسکتا، کیونکہ ہمارا ماضی اس حوالے سے بری طرح داغدار ہے۔
مثال کے طور بینظیر بھٹو جب تک سیاست میں نہیں آئی تھیں تو وہ پنکی تھیں۔ منتخب وزیراعظم کی بیٹی کے طور پر قابل احترم تھیں۔ لیکن جب سیاست کے تپتے ہوئے صحرا میں اتریں تو پھر ان کی نازیبا تصاویر تک بذریعہ ہیلی کاپٹر عوام تک پہنچائی گئیں۔ انہیں پارلیمنٹ جیسے مقدس ایوان میں برے ترین القابات سے نوازا گیا، کیونکہ ان کا اسٹیٹس بدل چکا تھا۔ وہ ایک بہن، بیٹی کے بجائے ایک سیاستدان بن چکی تھیں اور سیاست بالخصوص پاکستان کی سیاست تو وہ گندا جوہڑ بن چکی ہے، جہاں پر ریاست مدینہ بنانے کا خواب دیکھنے والا، نوجوانوں کی زندگیاں سیرت نبویؐ سے مزین کرنے کا خواہاں، آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ بھی غلیظ زبان استعمال کرنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ باقی ماندہ کا تو کیا پوچھنا۔ علاوہ ازیں، عائشہ گلالئی، عائشہ احد، شیریں مزاری، فوزیہ قصوری، حتیٰ کہ پردہ نشیں بشریٰ بی بی، ہر ایک کو کہیں نہ کہیں نشانہ بنایا گیا، لیکن ان کی تحقیر پر اس قدر مذمت اس لیے نہیں کی گئی کیونکہ وہ وزیراعظم کی بیٹی نہیں تھیں۔
الغرض ہماری سیاست خواتین کے حوالے سے بری طرح پراگندہ ہے۔ ضرور ت اس امر کی ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کےلیے اجتماعی معافی کا اہتمام کیا جائے، تاکہ آئندہ اگر ایسا کوئی واقعہ ہوتو ماضی کا حوالہ دے کر اس کا دفاع کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس حوالے سے سخت ترین قانون سازی کی جائے تاکہ مستقبل میں کسی کی زبان پھسلے تو زبان کی یہ پھسلن اسے سہولتوں سے محروم جیل تک لے جائے، اور ایسے مجرم کو رات کی عدالت کی سہولت بھی حاصل نہ ہو۔ عام آدمی کی طرح مہینوں اس کا کیس نہ لگے، برسوں تک اس کا فیصلہ نہ آئے۔
آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔
اور آخر میں ان تمام خواتین سے جو سیاست کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دینا چاہتی ہیں، گزارش ہے کہ اگر ہوسکے تو ماضی سے سیکھتے ہوئے پس پردہ رہتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ کیونکہ پاکستانی سیاست میں ابھی بلوغت کا وہ مقام نہیں آیا جہاں بہن، بیٹی کی عزت کی جاتی ہے، بلکہ انہیں آسان ہد ف سمجھتے ہوئے سامعین کو لطف اندوز کرنے کےلیے، غلیظ جملے بازی کی جاتی ہے۔