گھڑی اورمنحوس گھڑی

[post-views]
[post-views]



اکیسویں صدی میں وطن عزیز کے بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں دولہا کے گلے میں گھڑی ( گھڑیال / پینڈنٹ ) پہنائی جاتی ہے گھڑی کے چاروں طرف کرنسی نوٹ لگا دئیے جاتے ہیں ۔راقم الحروف کو اس رواج کی غرض وغایت سمجھ نہ آتی تھی۔ ایک دن عقدہ وا ہوا۔ کسی کے گھر جانا ہوا، شوہر صاحب نہایت غصے سے چلا رہے تھے: “کونسی منحوس گھڑی تھی جب میں نے تمہیں قبول کیا “۔ نوجوان خاتوں پروقار طریقے سے صاحب کا جاھلانہ کلام سن رہی تھی، کمرے میں گئی، واپس آئی تو ہاتھ میں گھڑیال نما گھڑی تھی ٫انتہا ئی پرسکون لہجے میں کہا: “یہ بدقسمت گھڑی تمہارے گلے کا ہار تھی ۔ ہفتے کا دن تھا، چار بج کر دس منٹ کا وقت تھا” ، تم نے اندر آکر گھڑی میز پہ رکھی تھی، میں نے سیل نکال لئیے تھے، وقت منجمد کردیا تھا ،مجھے اندازہ تھا ،ایک دن ایسی گفتگو کرو گےکیونکہ تم نے گھڑی دیکھی تک نہ تھی، نوٹ اتار کر جیب میں ڈال لئیے تھے۔ مجھے انداز ہ ہوگیا تھا کہ تمہیں پیسے کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ نہیں ، بولو میرے لئے کیا حکم ہے”۔ شوہر کے چہرے پر ایک رنگ آئے،ایک رنگ جائے۔ وہ کچھ کہہ نہ پائے۔ گھڑی بیت گئی ، دلہن کا دل ٹوٹ گیا، ذہنی ساتھ چھوٹ گیا۔ انسان کی سب سے بڑی خطا یہی ہے ،وہ گھڑی کی اہمیت نہیں سمجھتا، جس گھڑی جیون جیا جا سکتا ہے ،اس گھڑی کو منحوس گھڑی بنا لیتا ہے۔گھڑی گزر جاتی ہے ،نحوست نسل در نسل چلتی رہتی ہے۔ انسان کی حقیقت فقط اتنی ہے اک بلبلہ ہے پانی کا، جسے مان ہوتا ہے اپنی جوانی کا، بن جاتا ہے غلام اپنی خواہشات نفسانی کا ، بھول جاتا ہے


؎غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com


مادیت پرستی کے دور میں اہل ثروت سمجھتے ہیں غریب آدمی کیلئے ہر گھڑی ہی منحوس”گھڑی“ ہے ، ہر سانس بہت کڑی ہے۔ تیسری دنیا اوراُمت مسلمہ کیلئے شاعر کا قول درست ہے ”ہم عرصہ محشرمیں ہیں ، یہ محشر کی گھڑی ہے“۔ عام آدمی عمر بھر سوئٹزرلینڈکی ”گھڑی“کے خواب دیکھتا ہے تو شاعرکی زندگی وصل کی ”گھڑی“ کے خواب دیکھتے دیکھتے گذر جاتی ہے۔ کسی کو ”راڈو“نہیں ملتی تو کسی کو”لاڈو“ نہیں ملتی۔ شادی شدہ حضرات پورا جیون ”چینَ“کی”گھڑی“کی تمنامیں گزار دیتے ہیں مگر ان کا نصیب فقط چینِ کی گھڑی ہوتی ہے جو چلتی کم ہے چلاتی زیادہ ہے ۔ بعض علاقوں میں تو غریب ،امیر ،سب سکون کی گھڑی کو ترستے ہیں۔ بچپن کی اک اک گھڑی یا د آتی ہے، بہت رلاتی ہے
انگریزی کا محاورہ ہے ”ایک آدمی کی زندگی کی منحوس ترین گھڑی دوسرے آدمی کی زندگی کی بہترین گھڑی ثابت ہوسکتی ہے بلکہ اکثر اوقات ثابت ہوتی بھی ہے“۔ایک دوسرے کی مشکل ”گھڑی“سے فائدہ اٹھانے کارواج ہمارے ہاں عام ہوتا جارہاہے۔ اگرچہ ہاتھ والی ”گھڑی“ کارواج ختم ہوتاجارہا ہے مگر لگتا یوں ہے ہر”گھڑی“ کوئی نہ کوئی ہاتھ کر جاتا ہے۔ “ ایک شاعر کا گمان تھا کہ ”تقدیرکے موسم میں محنت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں “۔سمجھدارلوگ شاعر کے قول سے متفق نہیں ۔ اُن کا کہنا ہے ”گھڑیال ہرگھڑی اعلان کرتا رہتا ہے، عمر کی نقدی کم ہورہی ہے، انسان کو خواب غفلت سے باہر آناچاہیئے“۔ الہامی کتب میں مذکور ہے : ایک”گھڑی“ ایسی بھی تھی جب انسان کوئی قابل ذکر شیے نہ تھا پھر ایک”گھڑی“ ایسی بھی آتی ہے جب انسان اور کسی کو قابل ذکر نہیں سمجھتاحتی کہ اپنے خالق کے بارے میں جھگڑا شروع کردیتا ہے”۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ”گھڑی گھڑی کی بات الگ ہے“۔کسی دانشمند کاقول ہے کہ”زندگی دو”گھڑی“ کاہی تونام ہے ایک ”گھڑی“ حق میں تو دوسری خلاف۔ “ ہر ”گھڑی“ انسان کو یاد رکھنا چاہیئے ”یہ وقت بھی گزرہی جائے گا“۔ گھڑی کا ذکر آتے ہی کالم نگار کو درویش صفت، اللہ تعالی ٰ کے ولی ، ریٹائرڈ آئی جی پنجاب جناب امین صاحب مرحوم یاد آتے ہیں۔ آپ سچے عاشق رسول ﷺ تھے۔ہر گھڑی اپنا مقصد حیات پیش نظر رہتا تھا ۔ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں : “جب جونئیر افسر تھا تو ایک دن اطلاع ملی ، ایک کار نہر میں گر گئی ہے ۔ موقع پر پہنچا ۔ ریسکیو آپریشن کیا ، گاڑی میں سوار تمام افراد نوجوان تھے۔ سانسں رک چکی تھی ، نبض تھم چکی تھی کلائی پر بندھی گھڑی کی سوئیاں چل رہی تھیں”۔
؎ دیکھو مجھے جو دیدہء عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہو
رب کائنات نے انسان کو زندگی کی ہر”گھڑی“ بہت رحمت اور برکت کے ساتھ عطا کی ہے۔اختیار دیا ہے کہ وہ ہر ”گھڑی“ کو بہترین بنا لے یابدترین۔”گھڑی“ تو”گھڑی“ ہوتی ہے اُس کو منحوس یاسعد بنانا ہمارا اپنا اختیار ہے۔وقت کی”گھڑی“ تو ہر کسی کو میسر ہوتی ہے مگر کوئی اس کاصحیح استعمال کرکے اپنی دنیا اورآخرت بہتر کرلیتا ہے تو کوئی اس کا غلط استعمال کرکے ہرساعت کو اپنے لیئے گالی بنا لیتا ہے۔ کسی کی زندگی مثالی ہوتی ہے تو کسی کی وبالی,کسی کی عملی تو کسی کی خیالی۔فیض صاحب نے کہا”جسم و جان کی تکمیل کی گھڑی ابھی نہیں آئی۔خواب ابھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے”۔ محنت کا کارواں ابھی رواں دواں رہنا چاہیئے۔ اُمیدیں جوان رہنی چاہیں اور لگن کا سفر جاری رہنا چاہیئے۔آئیں آج ہم مل کر عہد کریں ہماری ہر”گھڑی“ پر پہلا حق پاکستان کا ہے۔اس وقت ہمارے ملک کو ہماری ”گھڑی گھڑی“ ضرورت ہے۔ ایک ”گھڑی“ کی بھی تاخیر ہم آئندہ نسلوں کیلئے بہت کڑی ہوگی اور ہماری یہ غلطی بہت بڑی ہوگی۔ اقبال تو پہلے ہی کہہ گئے تھے کہ ”فطرت ملت کے گناہوں کو معاف نہیں کرتی“ آیئے! اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کریں ۔ اپنے ہم وطنوں کی ہر ”گھڑی“ بہترین بنانے کیلئے اپنی ہر ”گھڑی“ وقف کردیں۔ زندگی ہر گھڑی ایک نیا امتحان ہے۔ امتحان میں کامیابی کا ایک ہی طریقہ ہے ہر گھڑی ایسے گزارنے کی کوشش کی جائے جیسے آخری نبی محمد ﷺنے گزاری ۔ دل کی گھڑی کب بند ہو جائے پتہ نہیں ۔ دل کی گھڑی ایک بار بند ہوجائے تو پھر روز قیامت ہی دوبارہ چلے گی اور ایسی چلے گی کبھی بند نہ ہو گی ، تب مگر عمل کا دفتر بند ہو چکا ہوگا۔ ابھی عمل کرنے کا وقت ہے ہر گھڑی کو اچھی گھڑی بنایا جا سکتا ہے، آخرت سنواری جا سکتی ہے ۔نبی کریم ﷺ ہر گھڑی ایسے گزار تے تھے جیسا خٰالق کائنا ت نے گزارنے کا حکم دیاہے۔اللہ نے خود فرمایا ہے :۔ “میرے پیغمبر کی اتباع کرو، میں تم سے محبت کرنے لگوں گا”۔ اہل بیت اور صحابہ کرام کی زندگیاں ہمارے لئے بہترین مثال ہیں کہ پیغمبر کی اتباع کیسے کی جائے۔ آئیے ! اسوہ رسولﷺ پر عمل پیرا ہونے کا عہد کریں ۔اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔کالم کے اختتام پر احمد فراز کی اک غزل:۔
نہ حریفِ جاں نہ شریکِ غم شبِ انتظار کوئی تو ہو
کسے بزمِ شوق میں لائیں ہم دلِ بے قرار کوئی تو ہو
کسے زندگی ہے عزیز اب کسے آرزوئے شبِ طرب
مگر اے نگارِ وفا طلب ترا اعتبار کوئی تو ہو
کہیں تارِ دامنِ گل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے
کہ نشان فصلِ بہار کا سرِ شاخسار کوئی تو ہو
یہ اداس اداس سے بام و در، یہ اجاڑ اجاڑ سی رہگزر
چلو ہم نہیں نہ سہی مگر سرِ کوئے یار کوئی تو ہو
یہ سکونِ جاں کی گھڑی ڈھلے تو چراغِ دل ہی نہ بجھ چلے
وہ بلا سے ہو غمِ عشق یا غمِ روزگار کوئی تو ہو
سرِ مقتلِ شب آرزو، رہے کچھ تو عشق کی آبرو
جو نہیں عدو تَو فرازؔؔ تُو کہ نصیب دار کوئی تو ہو

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos